فرینکفرٹ بک فیئر میں ہر جانب ای بکس کا چرچا
10 اکتوبر 2010کتابیں، کتابیں اور صرف کتابیں، جی ہاں آج کل فرینکفرٹ کی نمائش گاہ کے مختلف ہالوں میں حد نگاہ صرف کتابیں ہی کتابیں نظر آ رہی ہیں۔ نمائش گاہ میں اپنے پسندیدہ ادیبوں سے اقتباسات سننے کی کوششوں میں ادھر اُدھر بھاگتے ہوئے شائقین اور ایک خاص ادبی ماحول۔ جی ہاں دنیا میں کتابوں کے اس سب سے بڑے میلے میں انسانوں اور کتابوں کے لازوال رشتے کو بڑی آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس مرتبہ فرینکفرٹ بک فیئر میں ہر زبان سے صرف ڈیجیٹل کا لفظ سننے کو مل رہا ہے، کیونکہ اس مرتبہ ای بکس یا الیکٹرانک کتابوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ پڑھنے کے نئے نئے انداز بھی متعارف کرائے جا رہے ہیں، جیسے موبائل فون کے ذریعے ناول پڑھنا۔ میلے میں نئے ٹرینڈز کے بارے میں بک فیئر کے ڈائریکٹر ژرگن بوس نے بتایا کہ اب ہر شعبے کی طرح ادب کا انداز بھی بدل رہا ہے۔ بوس کے بقول مختلف شعبوں پر ڈیجیٹل انداز غالب آ چکا ہے اور کتابوں کی دنیا پر بھی یہ اپنی گرفت مظبوط کرتا جا رہا ہے۔
اس مرتبہ ارجنٹائن اس میلے کا مہمان ملک ہے۔ اسی وجہ سے ہسپانوی زبان کی کتابوں کی بھرمار ہے۔ صرف ارجنٹائن سے ایک ہزار سے زائد کتابیں لائی گئی ہیں، جن میں سے200 سے زائد کتابیں ترجموں کے ساتھ ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کتابوں کا مرکزی موضوع ایک ہی ہے اور وہ ہے ’’گزرے وقت کی یادیں۔‘‘ ان میں 1976ء سے لے کر1983ء تک کا ذکر بھی کیا گیا ہے، جب ارجنٹائن ایک خوفناک آمریت کے دور سے گزر رہا تھا۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ اہمیت مارٹین کوہان کے ناولZweimal Juni یعنی ’دو مرتبہ جون‘ کو دی جا رہی ہے۔ اس ناول میں وہ وقت بیان کیا گیا ہے جب آمر قتل و غارت گری، مخالفین کو تشدد کا نشانہ بنانے اور انہیں موت کے گھاٹ اتارنے میں مصروف تھے۔ اس میں ماریا تیریسا نامی ایک ایسی لڑکی کی نظر سے ان واقعات کی تصویر کشی کی گئی ہے، جو خود فوج کا حصہ ہے۔ 43 سالہ مارٹین کوہان کو ارجنٹائن کے اچھے ادیبوں میں گنا جاتا ہے۔ ان کی زیادہ تر تحریریں آمریت کے سیاہ دور کے بارے میں ہیں۔
ارجنٹائن کی جانب سے چھ سے دس اکتوبر کے دوران کوئی تین سو سے زائد مختلف ثقافتی او ادبی پروگراموں کا بھی انعقاد کیا جا رہا ہے۔ منگل پانچ اکتوبو کو جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے اس کتاب میلہ کا افتتاح کیا، جس کے بعد چھ اکتوبر سے عام شائقین کے لئے اس کے دروازے کھول دئے گئے۔ ویسٹر ویلے کے بقول کتاب کسی بھی معاشرے کے مختلف پہلوؤں کو جاننے کا ایک بہترین ذریعہ ہوتی ہے اور فن اور ثقافت کسی بھی معاشرے کی تربیت و ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے بغیر معاشرے میں قوت تخلیق نہیں رہتی، تعلیم پیشہ ورانہ اور تکنیکی سطحوں تک محدود رہ جاتی ہے اور معیشت جدت طرازی سے محروم ہو جاتی ہے۔
کتابوں کی اس دنیا میں، ہر طرح کے شائقین کے لئے کچھ نہ کچھ موجود ہے۔ اتوار تک کتابوں کے شوقین افراد نمائش گاہ میں موجود ناشرین اور مختلف ممالک کےاسٹالز کی سیر کر سکتے ہیں، جہاں ہر قدم پرکوئی نہ کوئی نئی اور دلچسپ کتاب ان کی منتظر ہے۔ اس دوران نوبل انعام یافتہ جرمن ادیب گنٹر گراس اپنے نئی کتاب کے اقتباسات پڑھ کر سنائیں گے۔ اسی طرح مشہور امریکی مصنف جوناتھن فرینزن بھی متعدد محفلوں میں بطور مہمان مدعو ہیں۔
اس مرتبہ فرینکفرٹ بک فیئر میں انسانی حقوق کے تحفظ اور ناخواندگی کے خاتمے کے لئے بھی بہت سے پروگراموں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ منتظمین اس بات پر بھی خوش ہیں کہ بچوں کی کتابوں کے ناشرین کی تعداد گزشتہ برس کے مقابلےمیں گیارہ فیصد زیادہ ہے۔ اگلے سال فرینکفرٹ بک فیئر کا مہمان ملک آئس لینڈ ہو گا۔
رپورٹ : عدنان اسحاق
ادارت: مقبول ملک