فسلطینیوں کا ’یوم غضب‘، تین ہلاک
13 اکتوبر 2015اسرائیلی پولیس کے مطابق آج منگل 13 اکتوبر کو یہ حملے یروشلم اور تل ابیب کے قریب کیے گئے جبکہ ان حملوں میں دس دیگر افراد زخمی بھی ہوئے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیل اور فسلطینیی علاقوں میں گزشتہ کئی برس کی بد ترین بدامنی کا سلسلہ تھمنے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اس صورتحال کے تناظر میں آج اپنی سکیورٹی کابینہ سے ملاقات کر رہے ہیں جس میں پولیس کی طرف سے پیش کیے گئے ’نئے آپریشنل پلان‘ پر غور وخوض کیا جائے گا۔
حکام کے مطابق اسرائیلی سکیورٹی کابینہ اس بات پر غور کر رہی ہے کہ مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کے رہائشی علاقے کو باقی شہر سے الگ کر کے سِیل کر دیا جائے کیونکہ پچھلے دو ہفتوں کے دوران حملے کرنے والے زیادہ تر فلسطینیوں کا تعلق اسی علاقے سے ہے۔
روئٹرز کے مطابق یروشلم میں دو فلسطینیوں نے ایک بس کے مسافروں پر چاقوؤں سے وار کیے اور گولیاں بھی چلائیں جس کے نتیجے میں دو افراد ہلاک جبکہ چار دیگر افراد زخمی ہوئے۔ ایک ایمبولینس سروس کے ترجمان کے مطابق اِس واقعے میں ایک حملہ آور کو ہلاک کر دیا گیا جبکہ دوسرے کو گرفتار کیا گیا ہے۔
اس حملے کے چند منٹ بعد ایک اور فلسطینی نے اپنی کار ایک بس اسٹاپ پر چڑھا دی اور پھر باہر نکل کر پیدل چلنے والوں پر چاقوؤں سے حملہ کر د یا جس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک جبکہ چھ زخمی ہوئے۔ تل ابیب کے شمال میں رانانا علاقے میں ایک فلسطینی نے ایک یہودی کو چاقو کے وار سے زخمی کیا۔ پولیس کے مطابق حملہ آور کو ’بے اثر‘ کر دیا گیا ہے تاہم اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ بے اثر کرنے سے پولیس کی مراد کیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق گزشتہ قریب دو ہفتوں سے عام مقامات پر حملوں اور اسرائیلی سکیورٹی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں سات اسرائیلی جبکہ 27 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں نو مبینہ حملہ آور اور آٹھ فسلطینی بچے بھی شامل ہیں۔
تشدد کے اس سلسلے میں اضافے کی ایک وجہ یہودیوں کی طرف سے مسجد الاقصیٰ کے دوروں میں اضافہ بھی ہے جس کی وجہ سے فلسطینی مسلمانوں میں غم وغصہ پایا جاتا ہے کیونکہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کے لیے مقدس ترین مذہبی مقامات میں سے ایک ہے۔