فلسطین، اسرائیل امن کے لیے جو ضروری ہوا، کروں گا، ٹرمپ
4 مئی 2017امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز وائٹ ہاؤس میں فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں انہوں نے فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا عزم تو ظاہر کیا تاہم اس بارے میں کوئی اشارہ نہیں دیا کہ فریقین کے درمیان طویل عرصے سے تعطل کے شکار مذاکرات کی بحالی اور تنازعے کے حل کے لیے اُن کا لائحہ عمل کیا ہو گا۔
تاہم فلسطینی صدر محمود عباس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنی اس پہلی ملاقات کو مثبت قرار دیا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ امریکا فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان تنازعے کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر سے ملاقات کے بعد صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں محمود عباس کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ سے ہونے والی ملاقات میں اس حوالے سے تفصیلات تو زیر بحث نہیں آئیں کہ امریکا مشرق وُسطیٰ تنازعے کے حل کے لیے کیا کرے گا تاہم فلسطینیوں اور امریکیوں کے درمیان رابطوں کا آغاز ہو گیا ہے جن میں اب اضافہ ہو گا۔ عباس کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ تنازعے کے دونوں فریقوں کو قریب لایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو سے ملاقات کے لیے تیار ہیں۔
خیال رہے کہ عباس ٹرمپ ملاقات سے قبل امریکی حکام نے کہا تھا کہ ٹرمپ عباس پر اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کے کُنبوں کو رقوم کی ادائیگی روک دینے کے لیے زور دیں گے۔ واشنگٹن حکومت کے خیال میں ایسا کرنا اُن کئی اقدامات میں سے ایک ہے، جن کے نتیجے میں اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات پھر سے بحال ہو سکتے ہیں۔ ٹرمپ اور عباس کے درمیان ہونے والی اس پہلی ملاقات سے قبل کہا گیا تھا کہ اس میں فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیل مخالف بیان بازی اور پُر تشدد کارروائیوں کے لیے اُکسانے کا عمل بھی روکنے کے لیے زور دیا جائے گا۔
رواں برس جنوری میں عہدہ صدارت سنبھالنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے سال فروری میں ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ملاقات کی تھی۔ صدر بننے کے بعد ٹرمپ نے تل ابیب میں واقع امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا، جسےکئی دہائیوں سے جاری امریکی پالیسی میں بڑی تبدیلی کا اشارہ قرار دیا گیا تھا۔