فلسطین کی آزادی کا معاملہ، سویڈش سفیر کی طلبی
5 اکتوبر 2014اسرائیلی وزارت خارجہ نے یروشلم میں تعینات سویڈن کے سفیر کو فلسطین کو تسلیم کرنے کے معاملے پر طلب کر لیا ہے۔ وزیر خارجہ اویگڈور لیبرمان کے مطابق وہ سویڈن کی جانب سے انتہائی جلدی میں کیے جانے والے اس فیصلے پر حیران ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے کو مکمل طور پر سمجھے بغیر کیا گیا ہے۔ اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں سویڈش سفیر کو طلب کیا جائے گا۔ اسی دوران اسرائیلی وزارت خارجہ کے ترجمان ایمانوئیل ناہاسون نے بتایا کہ سویڈش سفیر کو پیر کے روز بلایا جائے گا۔
سویڈن کے نئے وزیراعظم اسٹیفن لوفن نے جمعے کے روز اپنی حکومت کی ترجیحات کا اعلان کیا تھا۔ اس دوران انہوں نے کہا تھا کہ اسرائیل اور فلسطین کے مابین جاری تنارعے کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق صرف دو ریاستی حل کے ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے مزید کہا کہ سویڈن اس وجہ سے فلسطین کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تاہم اس دوران انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ اس منصوبے پر کب اور کیسے عمل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اسرائیل کو خدشہ ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو مزید یورپی ممالک بھی سویڈن کی پیروی کر سکتے ہیں۔
دوسری جانب فلسطینی صدر محمود عباس نے سویڈن کے اس اعلان کو سراہتے ہوئے اسے انتہائی قابلِ احترام قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2012ء میں فلسطین کو ایک مبصر ریاست کا درجہ دیا تھا۔ اس موقع پر بھی اسرائیل کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا تھا اور کوشش کی گئی تھی کہ محمود عباس اس سلسلے میں اپنی درخواست واپس لے لیں۔ یورپی یونین اور دیگر یورپی ممالک نے بھی ابھی تک باقاعدہ طور پر فلسطین کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
اسرائیل کہہ چکا ہے کہ وہ فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ امن بات چیت شروع کرنے پر تیار ہے۔ تاہم اس کے لیے عباس کو حماس کے ساتھ بنائی گئی متحدہ حکومت کو ختم کرنا ہو گا۔ حماس اور اسرائیل کے مابین کئی جنگیں ہو چکی ہیں۔ ابھی حال ہی میں جولائی اور اگست میں51 روز تک یہ دونوں ایک دوسرے پر حملے کرتے رہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ لیبر مان نے سویڈش وزیراعظم کو تجویز دی ہے کہ وہ فلسطین کے معاملے کو چھوڑ کر دنیا میں رونما ہونے والے دیگر واقعات جیسے کہ شام اور عراق میں قتل عام وغیرہ پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔