فن لينڈ سے ہزاروں مہاجرین کی رضاکارانہ وطن واپسی، مگر کيوں؟
12 فروری 2016فن لينڈ ميں سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ اب تک تقريباً 4100 عراقی تارکين وطن نے سياسی پناہ کی درخواستيں واپس لے لی ہيں اور امکان ہے کہ آنے والے مہينوں ميں يہ تعداد پانچ ہزار سے تجاوز کر جائے گی۔
يورپ کو ان دنوں دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اپنی تاريخ میں مہاجرين کے بد ترين بحران کا سامنا ہے۔ گزشتہ برس عراق، شام، افغانستان، پاکستان اور شمالی افريقی ملکوں سے ايک ملين سے زائد تارکين وطن سياسی پناہ کی خاطر يورپی بر اعظم پہنچے۔ فن لينڈ ميں سن 2014 ميں تقريباً 3600 تارکين وطن نے سياسی پناہ کے ليے درخواستيں جمع کرائی تھيں تاہم سن 2015 ميں يہ تعداد ساڑھے بتيس ہزار تک جا پہنچی۔ پناہ گزينوں کا دو تہائی حصہ نوجوان عراقی مردوں پر مشتمل ہے تاہم اب ايسا معلوم ہوتا ہے کہ يہ لوگ فن لينڈ ميں طويل المدتی بنيادوں پر قيام کے حوالے سے بے يقينی کا شکار ہيں۔
دارالحکومت ہیلسنکی ميں ايک ٹريول ايجنٹ کی دکان سے بغداد کا ٹکٹ خريدتے ہوئے السعيدی حسن نے بتايا، ’’ميرا بيٹا بيمار ہے۔ مجھے گھر واپس جانا ہے۔‘‘ اس ٹريول ايجنسی کے مالک صومالی نژاد محی الدين کا کہنا ہے کہ وہ آج کل يوميہ بنيادوں پر پندرہ سے بيس ايسے ٹکٹ فروخت کر رہا ہے۔ اس کے بقول پچھلے ايک دو ماہ کافی مصروف گزرے ہيں۔
واپس عراق کا رخ کرنے والے ان مہاجرين کی اکثريت نے اميگريشن حکام کو بتايا ہے کہ وہ عراق واپس اپنے اہل خانہ کے پاس جا رہے ہيں تاہم کچھ نے فن لينڈ ميں زندگی سے مايوسی کا بھی ذکر کيا۔ بين الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (IOM) ميں ايک پروگرام آفيسر ٹوبياس فان ٹريک کہتے ہيں، ’’کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ فن لينڈ ميں موجودہ صورتحال اور پناہ کی درخواستوں پر کارروائی کا طويل مرحلہ ان کی توقعات کے مطابق نہيں۔‘‘
عراقی پناہ گزين حسن کے بقول کچھ پناہ گزينوں کو فن لينڈ کا کھانا نہيں پسند تو کچھ کو موسم سرما سے مسائل ہيں اور کچھ بس اپنے اس احساس کا ذکر کرتے ہيں کہ فن لينڈ ميں انہیں خوش آمديد نہيں کہا گیا۔
فن لينڈ سے رضاکارانہ بنيادوں پر ملک بدری اختيار کرنے والے 80 فيصد عراقی شہری ہيں۔ وہاں موجود 877 شامی پناہ گزينوں ميں سے صرف بائيس نے اور 5214 افغان تارکين وطن ميں سے صرف پينتيس نے واپس اپنے ملک جانے کا فيصلہ کيا ہے۔
يہ امر اہم ہے کہ ديگر چند يورپی ملکوں کی طرح فن لينڈ نے بھی سياسی پناہ سے متعلق اپنی پاليسياں حال ہی ميں سخت تر بنا دی ہيں۔ وہاں پناہ گزينوں کے خلاف جذبات ميں بھی اضافہ ريکارڈ کيا گيا ہے۔