" فوج کورونا کی آڑ میں اپنا سیاسی ایجنڈا پھیلا رہی ہے"
1 مئی 2020اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے امور سے متعلق خصوصی ایلچی ینگھی لی نے الزام عائد کیا ہے کہ فوج نے مغربی ریاست راکھين میں علحیدگی پسند گروہوں کےخلاف جھڑپوں میں طاقت کا بے دریغ استعمال کیا اور عام شہريوں کو نشانہ بنایا۔ ینگھی لی کے مطابق اس علاقے میں فوجی اہلکاروں نے لوگوں کو حراست میں لیا جن کی بعد میں مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں ہیں۔
ینگھی لی پچھلے چھ سال سے میانمار میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر کام کر رہی ہیں۔ اس عرصے کے دوران حکومت نے انہیں ملک میں داخلے کی اجازت سے بارہا انکار کیا، جس کے باعث انہیں اپنا زیادہ تر کام ملک سے باہر رہ کر کرنا پڑا۔ اقوام متحدہ کی طرف سے ان کی وہاں تعیناتی کی مدت اب اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے۔
ینگھی لی نے دو ہزار سترہ میں میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف فوجی آپریشن کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں ساڑھے سات لاکھ لوگ ہمسایہ ملک بنگلہ دیش فرار ہونے پر مجبور ہوئے تھے۔ اس انسانی بحران کے سبب میانمار کی حکومت کو عالمی عدالت انصاف میں "نسل کشی" کے سنگین الزامات کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ، "میرے نزدیک یہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم ہیں۔ یہ عالمی قوانین کے خلاف بدترین اور گھناؤ نے جرائم ہیں۔"میانمار میں کورونا وائرس سے متعلق حکومت کی اعلیٰ سطحی کمیٹی میں اہم جرنیلوں اور فوج کے زیر اثر وزارتوں کے اہلکاروں کو مقرر کیا گیا ہے۔
میانمار میں سول۔ ملٹری شراکت اقتدار فارمولے کے تحت آئینی طور پر وزارت داخلہ، دفاع، بارڈر کنڑول کے ساتھ ساتھ پارلیمان کی ایک چوتھائی نشستوں پر فوج کے نامزد ارکان بیٹھتے ہیں۔
انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کی سبکدوش ہونے والی اہلکار کے مطابق میانمار میں فوج کے پاس پہلے سے وسیع اختیارات ہیں لیکن کورونا کی آڑ میں فوج اپنا اثر مزید بڑھا رہی ہے، جس سے اس کی زیادتیاں مزید ہولناک ہونے کا اندیشہ ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے سینیئر اہلکار فِل رابرٹسن کے مطابق، "میانمار کی فوج اور آن سان سوچی کی سولین حکومت میں اس کے سہولتکار دنیا میں کورونا وبا کی آڑ میں عليحدگی پسند گروہ 'اراکان آرمی' کے خلاف اپنے فوجی مظالم تیز کر رہی ہے اور انہیں کوئی پرواہ نہیں کہ ایسے میں وہ کسے مار رہے ہیں یا اپاہج کر رہے ہیں۔"
میانمار کی فوج نے ایک بیان میں اس قسم کے الزامات کو رد کیا اور کہا کہ سکیورٹی فورسز شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنا کام انجام دے رہی ہیں۔ میانمار کی ریاست راکھين میں پچھلے سوا سال سے جاری جھڑپوں میں لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ لوگ اپنے گھر بارچھوڑ کر بھاگنے پو مجبور ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق ایک عرصے سے جاری اس لڑائی میں علحیدگی پسند تنظیم 'اراکان آرمی' نے بھی بڑے پیمانے پر عام شہریوں پر حملے کیے ہیں اور لوگوں کو اغوا کیا ہے۔ اقوام متحدہ کا مطالبہ رہا ہے کہ کورونا کے عالمی بحران کے پیش نظر دنیا میں جہاں بھی مسلح تصادم جاری ہے وہاں فائر بندی کا اعلان کیا جائے۔
ش ج/ ک م (اے ایف پی، ایچ آر ڈبلیو)