فیس بک کو پانچ ارب ڈالر کے جرمانے کا سامنا
13 جولائی 2019امریکا کے فیڈرل ٹریڈ کمیشن نے مقبول سماجی ویب سائٹ فیس بک کے نگران ادارے پر پانچ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اس جرمانے کی حتمی منظوری امریکی محکمہٴ انصاف کے دیوانی شعبے کی جانب سے کمیشن کے فیصلے پر نظرثانی کے بعد دی جائے گی۔ امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل اور نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق فیس بک پر یہ جرمانہ صارفین کے ڈیٹا اور نجی معلومات کے تحفظ میں ناکامی کے تناظر میں کیا گیا ہے۔
بعض ناقدین نے اتنے بڑے جرمانے کو غیر مناسب قرار دیا ہے۔ فیس بک اور فیڈرل ٹریڈ کمیشن نے جرمانہ عائد کیے جانے کے بعد سامنے آنے والی رپورٹوں پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ اس سے قبل سن 2012 میں گوگل کو فیڈرول ٹریڈ کمیشن کی جانب سے بائیس ملین امریکی ڈالر کے جرمانے کا سامنا رہا تھا۔ دوسری جانب امریکی سٹاک مارکیٹ میں فیس بک کے حصص کی قدر میں اضافہ بھی دیکھا گیا ہے۔
یہ جرمانہ فیس بک کے خلاف صارفین کے نجی ڈیٹا کا مناسب تحفظ نہ کرنے کے حوالے سے جاری تفتیشی عمل پر فریقین کے درمیان ڈیل کی روشنی میں طے کیا گیا ہے۔ کمیشن کے ری پبلکن پارٹی کے اراکین اس مجوزہ ڈیل کی حمایت کر رہے ہیں جب کہ ڈیموکریٹک اراکین مخالفت میں ہیں۔ جرمانے کی حتمی منظوری ہو جاتی ہے تو امریکا میں یہ کسی ادارے پر عائد کیا جانے والا سب سے بڑا جرمانہ ہو گا۔
فیڈرل ٹریڈ کمیشن کی تفتیش کی شروعات گزشتہ برس کیمبرج انالیٹکا کی رپورٹ کے بعد ہوئی تھی۔ اس رپورٹ میں انکشافات کیے گئے تھے کہ انالیٹکا نے فیس بک انتظامیہ سے اُس کے ستاسی ملین صارفین کے ڈیٹا اور نجی کوائف غیر مناسب انداز میں حاصل کیے تھے۔
کیمبرج انالیٹکا ایک برطانوی ادارہ ہے، جو بریگزٹ کا حامی ہے۔ اسی ادارے نے سن 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات کے دوران موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سیاسی مشاورت بھی فراہم کی تھی۔
فیس بک اس کا بھی اعتراف کر چکا ہے کہ اُس نے کاروباری کمپنی ایمیزون اور انٹرنیٹ سرچ انجن یاہو کو بھی اپنے صارفین کے ڈیٹا تک رسائی کی اجازت دی تھی۔ اس کے علاوہ فیس بک انتظامیہ کو نفرت انگیز مواد کی تشہیر و ترویج کے ساتھ ساتھ غلط معلومات عام کرنے حوالے سے مناسب تادیبی اقدامات نہ کرنے پر بھی شدید تنقید کا سامنا رہا ہے۔
نتالی الیکس مُولر (عابد حسین)