قانونی طور پر ہنگری داخل ہونے کی کوشش کرنے والے مہاجرین
13 مئی 2016احمد کا تعلق شام سے ہے۔ وہ شام میں خانہ جنگی سے فرار ہو کر سربیا تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکا ہے لیکن اب اس کی خواہش ہے کہ وہ کسی طرح وسطی یا شمالی یورپ پہنچ جائے۔ لیکن مہاجرت کے بحران کے پیچیدہ ہو جانے کے باعث اب مہاجرین کا سربیا سے مزید آگے بڑھنا مشکل امر ہے۔
احمد نے جب شام چھوڑا تھا تو وہ وہاں قانون کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ نئے خواب سجائے وہ اپنی زندگی کو آگے بڑھانا چاہتا ہے۔
گزشتہ بیس دنوں سے وہ سربیا کے روزیکے (Röszke) نامی ایک ٹرانزٹ زون میں موجود ہے۔ یہ مقام ہنگری سے صرف چند قدم کی دوری پر ہی ہے۔ احمد کے بقول یہاں زندگی امتحان طلب ہے۔
احمد کمبلوں سے بنائے گئے ایک کیمپ میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی طرف سے دیے جانے والے بسکٹ اس کی خوارک ہیں جبکہ وہ ٹوائلٹ کے طور پر جھاڑیوں کا استعمال کرنے پر مجبور ہے۔
تاہم اس کے حوصلے پست نہیں ہوئے اور اس کا خیال ہے کہ وہ ایک دن اپنے من پسند ملک پہنچنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
بظاہر شامی مہاجر احمد اور سربیا میں موجود دیگر مہاجرین اور تارکین وطن کے پاس دو راستے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ غیر قانونی طور پر سرحدوں پر نصب باڑوں کو کاٹ کر ہنگری داخل ہو جائیں لیکن اگر ایسا کرتے ہوئے وہ پکڑے گئے تو انہیں سربیا سے ہی ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔
گزشتہ برس پندرہ ستمبر سے اب تک روزانہ بنیادوں پرکم ازکم ڈیڑھ سو مہاجرین ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جنہیں ہنگری کے سرحدی محافظ پکڑ لیتے ہیں۔
ان مہاجرین کے لیے دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ ہنگری کی سرحد کے گرد قائم ٹرانزٹ زونز کا استعمال کریں۔ وہاں اس طرح کے چار زونز ہیں۔ یہ زونز قانونی طور پر غیرجانبدار علاقے ہیں، جہاں سے ہنگری داخل ہونے والے مہاجرین کی پناہ کی درخواست مسترد نہیں کی جاتی۔ ان مقامات پر اب باقاعدہ فوجی اور پولیس اہلکار تعینات کیے جا چکے ہیں۔
ان زونز میں موجود مرد مہاجرین کو اپنی درخواست پر عملدرآمد کی خاطر کئی ماہ تک انتظار کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ ہنگری کے حکام پہلی ترجیح کے طور پر خواتین، بچوں، بزرگ اور معذور افراد کی درخواستوں کو پراسس کرتے ہیں۔
احمد چونکہ اکیلا ہے، اس لیے وہ بھی اپنے جیسے دیگر مرد مہاجرین کی طرح اپنی پناہ کے دعوے پر فیصلہ ہونے کے انتظار میں ہے۔ اس مقام پر چالیس ایسے مرد ہیں، جو اکیلے ہیں اور وہ ہنگری داخل ہونے کی کوشش میں ہیں۔
افغان مہاجر ادریس بھی ہنگری کی سرحد پر قائم سربیا کے روزیکے (Röszke) ٹرانزٹ زون میں موجود ہے۔ اٹھارہ سالہ اس نوجوان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایسے امکانات انتہائی کم ہیں کہ وہ ہنگری جا سکے گا۔ اس نے بتایا کہ ان زونز میں مترجم افراد کی کمی بھی ہے، ’’وہ (حکام) ہمیشہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس فارسی زبان جاننے والے مترجم نہیں ہیں‘‘۔ اس کے مطابق وہاں صرف عربی زبان بولنے والے مترجم ہی موجود ہیں۔
ڈی ڈبلیو نے روزیکے میں دیکھا کہ وہاں مہاجرین کی صورتحال انتہائی ابتر تھی۔ وہاں لگائے گئے خیموں میں سے نصف ایسے تھے، جو کنبے اپنی تعطیلات کے لیے استعمال کرتے ہیں جبکہ دیگر نصف یعنی بیس خیمے کملبوں اور پلاسٹک کی شیٹ سے بنائے گئے تھے۔ وہاں نہ تو ٹوائلٹس کی سہولت موجود تھی اور نہ ہی خوراک خریدنے کی کوئی دوکان یا مارکیٹ۔
انسانی حقوق کی کارکن لاڈیا گال، جو ان ٹرانزٹ زونز سے واقف ہیں، نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا، ’’ان ٹرانزٹ زونز کے باہر کی صورتحال ناقابل قبول ہے۔ یہ صورتحال نہ تو ہنگری اور نہ ہی بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ان مقامات پر پناہ کی درخواستوں کے پراسس کا عمل بھی انتہائی سست ہے۔
دوسری طرف ہنگری کے متعلقہ حکام ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان زونز میں مہاجرین کو ہر مدد فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان مہاجرین کو کھانا بھی دیا جا رہا ہے اور انہیں دیگر ضروری سامان پہنچانے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ ہنگری میں مہاجرت کے ادارے OIN کے مطابق ان مقامات پر درخواستوں کو پراسس کرنے میں تاخیر کی وجہ مہاجرین کی زیادہ تعداد اور انٹرویو کا عمل ہے۔