قبائلی عوام کو امن کا تحفہ دینا چاہتے ہیں، وزیر اعظم
10 جولائی 2013نواز شریف نے پاکستان میں دہشت گردی اور توانائی بحران کے خاتمے کے لیے مجوزہ قومی کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد سے قبل بدھ کے روز اسلام آباد میں قبائلی اراکین پارلیمان کے ساتھ ملاقات کی۔
اس ملاقات کے بعد وزیراعظم دفتر سے جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان کے مطابق میاں نواز شریف نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنی حکومت کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ دہشت گردی کے مسئلے کا بامعنی حل تلاش کرنے کے لیے ایک بہتر اور مربوط پالیسی پر عمل پیرا ہوں۔
دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں مذاکرات کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے نواز شریف نےکہا کہ مذاکرات کی کھڑکی ہر وقت کھلی رکھنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا کے منتخب اراکین اصل اسٹیک ہولڈرز ہیں اور خطے میں قیام امن کے منصوبے کو حتمی شکل دینے کے لیے مشاورتی عمل میں ان کی بھرپور شرکت ناگزیر ہے۔
فاٹا میں لاقانونیت اور پسماندگی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ان کی حکومت فاٹا کے عوام کو ترقی اور امن کا تحفہ دینا چاہتی ہے۔
وزیراعظم سے فاٹا اراکین کی ملاقات کے بعد ن لیگ کے رہنما اور وفاقی وزیر مملکت خرم دستگیر نے کہا کہ اس ملاقات کا مقصد شورش کے خلاف کارروائی میں عوامی حمایت حاصل کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ'' پہلا اصول یہ ہے کہ جو انتہا پسند ہیں، انہیں مقامی آبادی سے کاٹ دیا جائے، عام شہریوں سے الگ کیا جائے کیونکہ جب تک انتہا پسندوں کو مقامی آبادی کی حمایت حاصل رہے گی، کوئی بھی ایکشن نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔ آج جو فاٹا کے اراکین پارلیمنٹ سے گفتگو ہوئی ہے، اس کا مقصد یہی ہے کہ عوامی اور سیاسی حمایت حاصل کی جائے تاکہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو تنہا کیا جا سکے اور پھر جب وہ تنہا ہوں گے، ان کے خلاف ایکشن آسان ہو گا اور کم از کم فاٹا کی حد تک ہم کچھ پیش قدمی کر سکیں گے۔''
وزیراعظم کے ساتھ فاٹا اراکین نے قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے متعدد تجاویز بھی پیش کیں۔ حکومت نے پہلے بارہ جولائی کو دہشت گردی اور توانائی بحران سمیت دیگر مسائل سے نمٹنے کے لیے قومی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا تھا تاہم ذرائع کے مطابق حزب اختلاف کی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی لندن روانگی کے سبب اب یہ کانفرنس بارہ جولائی کو نہیں ہو گی اور اس کی حتمی تاریخ کا اعلان وزیراعظم بعد میں کریں گے۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ حکومتیں ان مسائل سے نمٹنے کے لیے کل جماعتی کانفرنسوں کا انعقاد کرتی رہیں لیکن ان کے ٹھوس نتائج سامنے نہیں آ سکے۔ سابق وزیرداخلہ اور پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمان ملک کا کہنا ہے کہ قومی معاملات پر کل جماعتی کانفرنس بلانے سے مسائل کے حل میں مدد ملتی ہے۔ سپریم کورٹ کے باہر ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ''ایسی چیزوں کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔ دیکھیے جو ہم نے مالاکنڈ سوات میں آپریشن کیا تھا، وہ ایک آل پارٹیز کانفرنس کے بعد ہوا اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ فوج نے تین مہینے میں ایک زبردست کارروائی کر کے دہشت گردوں کو وہاں سے نکال باہر کیا اور مالاکنڈ سوات کو واپس حاصل کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے اجلاس ہونے چاہییں اور ایسے مسئلے پر پوری قوم کو متحد ہونا چاہیے۔''
حکومت کی مجوزہ کل جماعتی کانفرنس میں چیف آف آرمی اسٹاف سمیت اعلیٰ فوجی اور سول حکام اور خفیہ ایجنسیوں کے نمائندے شرکاء کو سکیورٹی کی صورتحال پر بریفنگ بھی دیں گے۔