1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قبرص: تارکین وطن کی آمد ایس ایم ایس کے ذریعے روکنے کی کوشش

1 جون 2020

قبرص کی حکومت ایک ایسی کثیر اللسانی ایس ایم ایس سروس شروع کر رہی ہے، جس کا مقصد ملک میں تارکین وطن کی آمد کو روکنا ہے۔ اس سروس کے ذریعے یہ غلط تاثر زائل کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ قبرص ’یورپی براعظم کا دروازہ‘ ہے۔

https://p.dw.com/p/3d6TZ
تصویر: picture-alliance/AP Photo/P. Karadjias

نکوسیا سے پیر یکم جون کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ملکی وزیر داخلہ نے کہا کہ یورپی یونین کی رکن اس جزیرہ ریاست کی حکومت اس سروس کے ساتھ ایسے مزید تارکین وطن اور پناہ کے متلاشی افراد کو قبرص پہنچنے سے روکنا چاہتی ہے، جو یہ سمجھتے ہوئے اس ملک کا رخ کرتے ہیں کہ قبرص 'یورپ کا دروازہ‘ ہے۔

وزیر داخلہ نیکوس نُورس نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ موبائل فونز پر بھیجے جانے والے ان مختصر ٹیکسٹ پیغامات کا بنیادی مقصد تارکین وطن میں پھیلائی جانے والی غلط معلومات یا ڈس انفارمیشن کا تدارک ہے۔ نیکوس نُورس نے کہا کہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے جرائم پیشہ گروہ ان افواہوں کو ہوا دے رہے ہیں کہ وہ پناہ کے متلاشی تارکین وطن کو قبرص میں پناہ کا حق دلوا سکتے ہیں۔

'قبرص شینگن زون کا حصہ نہیں‘

قبرصی وزیر داخلہ نے کہا، ''انسانوں کے یہ اسمگلر اپنے مالی فائدے کے لیے تارکین وطن کو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر وہ ایک بار قبرص پہنچ گئے تو قبرصی حکومت ان غیر ملکیوں کو ایسے پاسپورٹ جاری کر دے گی، جن کی مدد سے وہ یونین کے رکن دیگر ممالک تک کا سفر کر سکیں گے۔‘‘

نیکوس نُورس کے مطابق، ''یورپ میں کُل 26 ممالک ایسے ہیں، جن میں سے بہت بڑی اکثریت یورپی یونین کی رکن بھی ہے اور جو اپنے ہاں سرحدی نگرانی کا عمل ختم کر کے آزاد سرحدی معاہدے شینگن میں شامل ہو چکے ہیں۔ تاہم میں یہ بھی واضح کرنا چاہوں گا کہ جو تارکین وطن یونین کی رکن جزیرہ ریاست قبرص آئیں گے، وہ عملی طور پر یہیں پھنس کر رہ جائیں گے اور کہیں نہیں جا سکیں گے۔‘‘

قبرصی آبادی میں پناہ کے متلاشی غیر ملکی تقریباﹰ چار فیصد

قبرص کی آبادی تقریباﹰ آٹھ لاکھ 80 ہزار ہے مگر وہاں تارکین وطن کی تعداد نسبتاﹰ کافی زیادہ ہے۔ مجموعی آبادی کے تناسب سے قبرص میں پناہ کے متلاشی غیر ملکیوں کی شرح پوری یورپی یونین میں سب سے زیادہ ہے، جو مجموعی قومی آبادی کا 3.8 فیصد بنتی ہے۔

کافی زیادہ تعداد میں مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کا سامنا کرنے والے یونان، اٹلی، اسپین اور مالٹا جیسے یورپی ممالک میں ایسے غیر ملکیوں کا تناسب ان ریاستوں اپنی اپنی مجموعی قومی آبادی کے ایک فیصد سے بھی کم بنتا ہے۔

ان مہاجرین میں سے صرف 25 فیصد سے لے کر 30 فیصد کا تعلق ایسے ممالک سے ہے، جو واقعی بحرانوں یا مسلح تنازعات کا شکار ہیں۔ باقی 70 فیصد سے لے کر 75 فیصد تک غیر ملکی ایسے ممالک کے شہری ہیں، جو جنگ زدہ یا بحران زدہ نہیں ہیں۔

پاکستانی تارکین وطن پانچویں سب سے بڑی قومیت

نکوسیا میں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس جتنے بھی غیر ملکیوں نے قبرص میں پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں، ان میں جنوبی ایشیائی باشندوں کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی۔ 2019ء میں ایسے تارکین وطن میں شامی شہریوں کی تعداد سب سے زیادہ رہی تھی۔

شامی باشندوں کے بعد دوسرے نمبر پر جارجیا، تیسرے پر بھارتی، چوتھے پر بنگلہ دیشی اور پانچویں نمبر پر سب سے زیادہ تعداد پاکستانی شہریوں کی تھی۔ اس کے بعد پناہ کے درخواست دہندگان کی سب سے زیادہ تعداد کے حوالے سے چھٹے سے لے کر دسویں نمبر تک بالترتیب کیمرون، ویت نام، مصر، نائیجریا اور پھر سری لنکا کے شہری رہے تھے۔

م م / ا ا (اے پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں