قدرتی گیس: اربوں ڈالر مالیت کا چار ملکی معاہدہ
29 اپریل 2011نئی دہلی میں پچھلے چار دنوں سے جاری ان چاروں ملکوں کے وزراء اور اعلیٰ حکام کی میٹنگ کے اختتام پر بھارت کے پٹرولیم اور قدرتی گیس کے وزیر ایس جے پال ریڈی نے کہا کہ تقریبا ﹰ 7.6 بلین ڈالر مالیت کا ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا یا TAPI گیس پائپ لائن پروجیکٹ سن 2016 تک مکمل ہو جانے کی امید ہے۔ انہوں نے کہا کہ گیس کی قیمت، ٹرانزٹ فیس اور دیگر امور مقررہ مدت کے اندر طے کر لیے جائیں گے اور رکن ممالک کے درمیان گیس کی خرید و فروخت کا GSPA معاہدہ 31 جولائی تک ہوجائے گا۔
خیال رہے کہ TAPI پروجیکٹ کے تحت ترکمانستان سے گیس افغانستان کے راستے سے پاکستان اور بھارت پہنچے گی۔ افغانستان کے 753 کلومیٹر علاقے سے گزرنے والی پائپ لائن کو بچھانا اور اس کی مستقل نگرانی اپنے آپ میں ایک بڑا چیلنج ہوگا اور اس کی نگرانی کے لیے افغانستان کے مقامی قبائل کو رقوم ادا کی جائیں گی۔ اس پروجیکٹ کے مکمل ہوجانے کے بعد بھارت اور پاکستان ترکمانستان کے یلوتین عثمان گیس فیلڈ سے یومیہ 38 ملین کیوبک میٹر گیس درآمد کریں گے جبکہ افغانستان یومیہ 14 ملین کیوبک میٹر گیس درآمد کرے گا۔
پٹرولیم اور قدرتی گیس سے متعلق پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر ڈاکٹر عاصم حسین نے کہا، ”یہ نہایت اہم پائپ لائن پروجیکٹ ہے۔ یہ نہ صرف ہمارے ملک کی توانائی کی ضروریات پوری گا بلکہ اس سے تینوں ملکوں کی انرجی سکیورٹی کو بھی بہتر بنانے میں یقینی طور پر مدد ملے گی“۔ عاصم حسین نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں گیس کی پیداوار اس وقت 4 بلین کیوبک فٹ (BCF) ہے۔ ’’پاکستان کو اس پروجیکٹ کے ذریعہ 1.3بی سی ایف گیس ملے اور یوں ہمیں آج کی ضروریات کے لحاظ سے مزید 25 فیصد گیس ملے گی۔ اس سے ہماری گیس کی ضروریات بڑی حد تک پوری ہوسکیں گی۔“ انہوں نے پورے اعتماد کے ساتھ کہا کہ GSPA کا معاملہ 31 جولائی کی مقررہ تاریخ تک حل کر لیا جائے گا۔
اس سوال کے جواب میں کہ آخر بھارت نےایران، پاکستان انڈیا گیس پائپ لائن پروجیکٹ سے الگ ہونے کا فیصلہ کیوں کیا، پاکستانی وزیر اعظم کے پٹرولیم سے متعلقہ امور کے مشیر نے کہا کہ یہ بھارت کا اپنا معاملہ ہے کہ وہ اس پروجیکٹ میں شامل رہنا چاہتا ہے یا نہیں۔ ’’بہر حال اس کی شمولیت کے امکانات اب بھی موجود ہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ایران نے اپنی سرحد تک پائپ لائن بچھا دی ہے اور اب ہم اپنی طرف کی پائپ لائن بچھانے کا کام شروع کرنے والے ہیں اور دسمبر 2014 سے ایران سے پائپ لائن کے ذریعے گیس کی سپلائی شروع ہو جائے گی۔
خیال رہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں کو ہی پٹرولیم اور قدرتی گیس کی اشد ضرورت ہے۔ بھارت اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پٹرولیم اور قدرتی گیس کا 70 فیصد دوسرے ملکوں سے درآمد کرتا ہے۔ IPI گیس پائپ لائن پروجیکٹ سے الگ ہو جانے کے سبب بھارت کی انرجی سکیورٹی کو جو پریشانیاں لاحق ہوگئی تھیں، ان کےTAPI پروجیکٹ سے بڑی حد تک دور ہو جانے کی امید ہے۔ بھارت کے پٹرولیم سیکریٹری ایس سدرشن نے کہا کہ TAPI پروجیکٹ کے حوالے سے اس میں شامل ملکوں کے درمیان کافی ہم آہنگی ہے اور امید ہے کہ باقی ماندہ حل طلب امور بھی خوش اسلوبی کے ساتھ حل ہو جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں اگلے ماہ افغان حکومت کے ساتھ بھی ایک میٹنگ ہونے والی ہے۔
رپورٹ: افتخار گیلانی، نئی دہلی
ادارت: عصمت جبیں