قذافی کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے، اوباما
12 مارچ 2011برسلز میں یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں بھی ایک مرتبہ پھر کہا گیا ہے کہ قذافی کو عہدہ چھوڑنے پر مجبور کرنے کے لیے ’تمام آپشنز‘ کھلے رکھے گئے ہیں، تاہم لیبیا پر کسی فضائی حملے، عسکری کارروائی یا نوفلائی زون کے حوالے سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔
ناقدین امریکی صدر اوباما کو لیبیا کی صورتحال میں سست ردعمل ظاہر کرنے پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں حالانکہ امریکہ کی جانب سے قذافی اور ان کے قریبی رفقاء کے خلاف مالی پابندیوں کے ساتھ ساتھ لیبیا کی فوجی امداد پر بھی پابندی عائد کی جا چکی ہے۔
امریکی صدر باراک اوباما کے مطابق اس سلسلے میں تمام اتحادیوں کے ساتھ مل کر آہستہ آہستہ قذافی کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قذافی بین الاقوامی سطح پر تنہا ہوتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ نے اپنے لیے تمام آپشنر ابھی تک کھلے رکھے ہیں۔
اوباما کے اس بیان کے کچھ ہی دیر بعد امریکی وزارت خزانہ نے قذافی کی اہلیہ، چار بیٹوں اور لیبیا کے چار دیگر اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے اثاثوں کے انجماد سے متعلق پابندیوں کو مزید سخت بنانے کا اعلان کیا۔
دریں اثناء لڑاکا طیاروں، ہیلی کاپٹروں اور ٹینکوں سے لیس قذافی کی حامی افواج حکومت مخالفین کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ جمعہ کے روز لیبیا کی فوج نے ساحلی علاقے راس لانوف پر بحری، بری اور فضائی حملہ کیا۔ فوج کے مقابلے میں باغیوں کے پاس صرف چھوٹے ہتھیار ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق لیبیا میں باغی، قذافی کی حامی افواج کو روکنے میں مغربی دنیا کی طرف سے کسی بڑے قدم کے نہ اٹھائے جانے پر خاصے مایوس دکھائی دیتے ہیں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ میں لیبیا کے سابق سفارتکار عبد الرحمان نے کہا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ پیر کے روز لیبیا کی اپوزیشن کے اہم رہنما محمود جبریل سے پیرس میں ملاقات کرنے والی ہیں۔ جبریل جمعرات کے روز پیرس پہنچے تھے، جہاں فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی نے ان کا استقبال کیا۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : شادی خان سیف