قرآن نذر آتش کرنے کا واقعہ، امریکی و افغان صدر کی بات چیت
7 اپریل 2011گزشتہ ماہ امریکی ریاست فلوریڈا کے ایک چرچ میں مسلمانوں کی مقدس کتاب کے نسخے نذر آتش کیے گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد دنیا کے کئی مسلم ملکوں میں چھوٹے پیمانے پر مظاہرے کیے گئے۔ تاہم افغانستان میں ہونے والے احتجاج کی شدت بہت زیادہ ہے اور پرتشدد مظاہروں میں اب تک 24 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ مرنے والوں میں اقوام متحدہ کے سات اہلکار بھی شامل ہیں۔ افغانستان میں احتجاج کا سلسلہ چھٹے روز مں داخل ہوگیا ہے۔
اس تناظر میں امریکی صدر نے اپنے افغان ہم منصب حامد کرزئی سے ایک گھنٹے طویل ویڈیو کانفرنس کی۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق دونوں صدور نے قرآن کو نذر آتش کیے جانے کے اس واقعے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ساتھ ہی انہوں نے یکم اپریل کو اقوام متحدہ کے دفتر پرحملے پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا۔ باراک اوباما اور حامد کرزئی اس بات پر متفق تھےکہ بے گناہ افراد کا قتل انسانیت کے منافی ہے۔ اس موقع پر صدر حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ وہ مزار شریف میں اقوام متحدہ کے دفتر پر ہونے والے حملے کی مکمل تحقیقات کرائیں گے۔
امریکی حکام نے گزشتہ ہفتے ہی فلوریڈا میں رونما ہونے والے اس واقعے پر کہا تھا، ’’امریکی اقدار میں اس طرح کی کوئی گنجائش نہیں ہے، یہ عدم برداشت کی انتہا اور یہ ایک متعصبانہ عمل ہے‘‘۔
اوباما اورکرزئی نے افغانستان کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ افغانستان کے مختلف شہروں میں فلوریڈا کے واقعے کے خلاف تازہ ہنگاموں کے دوران پولیس پر پتھراؤ او ہنگامہ آرائی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: شادی خان سیف