’قصاب کا کبا کیا جائے‘، فیصلہ آج ہو گا
3 مئی 2010اجمل قصاب پر 86 الزامات ہیں، جن میں بھارت پر جنگ مسلط کرنا، قتل اور حکومت کو غیرمستحکم کرنا بھی شامل ہے۔ جرم ثابت ہونے پر ملزم کو موت کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔
تاہم وکلاء کا کہنا ہے کہ سزائے موت کے ممکنہ فیصلے کے بعد بھی عدالتی اپیلوں کے طویل مرحلے کا آغاز ہو سکتا ہے۔ بھارتی ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ اس 22 سالہ ملزم کی جانب سے ایسے کسی فیصلے کے خلاف اپیل یقینی ہے۔ ممبئی حملوں کے متاثرین اجمل قصاب کے لئے پھانسی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں جبکہ تقریبا ایک سال سے جاری اس عدالتی کارروائی کے دوران اب تک متعدد ڈرامائی موڑ آ چکے ہیں۔
قصاب نے قبل ازیں اپنے خلاف الزامات کی تردید کی تھی۔ تاہم بعدازاں اس نے حملوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کر لیا۔ ملزم نے عدالت سے استدعا کی کہ اس کے لئے پھانسی کی سزا کا حکم سنایا جائے۔ دوران سماعت ملزم کی یہ درخواست نامنظور کر دی گئی تھی، اور مقدمے کی کارروائی معمول کے مطابق جاری رہی۔
دو بھارتی شہریوں فہیم انصاری اور صبیح الدین احمد پر الزام ہے کہ انہوں نے بھی ان حملوں کی سازش کی اور اہداف کے نقشے تیار کئے۔ آج پیر کے روز عدالتی فیصلے میں ان ملزمان کے خلاف سزا کا اعلان بھی متوقع ہے۔
نومبر 2008ء کو ممبئی کے مختلف مقامات پر دہشت گردانہ حملوں میں کم از کم 166 افراد ہلاک اور تین سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ دس حملہ آوروں نے یہ حملے تین دن تک جاری رکھے، جنہیں دنیا بھر میں توجہ حاصل رہی۔ عالمی برادری نے ان حملوں پر سخت ردعمل ظاہر کیا، جنہیں بھارتی تاریخ کے بدترین دہشت گردانہ حملے تصور کیا جاتا ہے۔ ان کارروائیوں میں دو لگژری ہوٹلوں، ایک ریلوے اسٹیشن اور ایک یہودی مرکز کو نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں میں 26 غیرملکی بھی ہلاک ہوئے تھے۔
دس حملہ آوروں میں سے ایک اجمل قصاب ہی زندہ گرفتار ہوا تھا، جس کا تعلق ممنوعہ پاکستانی شدت پسند تنظیم لشکر طیبہ سے بتایا جاتا ہے۔ قصاب اور اس کے ایک ساتھی ابو اسمٰعیل پر چھتراپتی ریلوے اسٹیشن پر اندھا دھند فائرنگ اور دستی بموں سے حملوں کا الزام ہے، جس کے نیتجے میں 58 افراد ہلاک اور ایک سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
ان حملوں کے ردعمل میں بھارت اور پاکستان کے مابین تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے اور پانچ سال سے جاری دوطرفہ مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔
پاکستان میں بھی ممبئی حملوں کے حوالے سے گرفتاریاں کی گئیں اور چھ افراد پر مقدمہ قائم ہے، جن میں کالعدم لشکر طیبہ کا ایک سینیئر رہنما ذکی الرحمان لکھوی بھی شامل ہے۔ لکھوی کا شمار مبینہ طور پر ان حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں میں ہوتا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: مقبول ملک