قطر کا سفارتی بحران، معاملہ حل کیسے ہو گا؟
6 جون 2017روس اور امریکا اس سفارتی بحران کی شدت کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان نے بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سلسلے میں بحران سے منسلک تمام فریقوں سے بات چیت کرنے پر تیار ہیں۔ ساتھ ہی روس، ترکی اور کویت نے بھی اس بحران کے حل کے لیے مذاکرات کا راستہ اختيار کرنے کی بات کی ہے۔
قطر کے وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے بھی مکالمت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے ملک کی جانب سے کوئی اشتعال انگیزی نہیں کی جائے گی۔ الثانی نے اس موقع پر امریکا کے ساتھ باہمی روابط کو اہم قرار دیا۔ خطے میں امریکی فضائیہ کی سب سے بڑی چھاؤنی قطر میں ہی موجود ہے۔
سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے بعد اب مالدیپ نے بھی قطر کے ساتھ سفارت کاری ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ان میں سے تین ممالک نے قطر کے ساتھ فضائی رابطے بھی منقطع کر دیے ہیں، جس کی وجہ سے یہ ملک بڑی حد تک تنہا ہو گیا ہے۔ دوحہ حکومت پر دہشت گردی کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔
یورپی یونین اور ایران نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا، ’’پڑوسی مستقل ہوتے ہیں۔ جغرافیہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا، زبردستی یا جبر کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ بات چیت ضروری ہے اور خاص طور پر رمضان جیسے بابرکت مہینے میں۔‘‘
متحدہ عرب امارات کی جانب سے آج منگل کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ اگر قطر ضمانت دے تو تعلقات کی بحالی کے بارے میں سوچا جائے گا۔ اماراتی ریاستی وزیر برائے امور خارجہ انور قرقاش کے بقول، ’’ہمیں بھرپور ضمانت چاہیے تاکہ اعتماد کو بحال کیا جا سکے۔‘‘