قومی خزانے کا ضیاع اور حکومتی پالیسیاں
7 اپریل 2023پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے جمعرات کو انکشاف کیا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے 600 سرمایہ داروں کو تین ارب ڈالرز کا قرضہ بلا سود، یا بہت کم سود پر دیا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ قومی خزانے کا ضیاع جبکہ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اس قرضے سے ملک کی صنعت کو فروغ ملا۔
ملکی پارلیمان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے جمعرات چھ اپریل کو کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حکام کو بلا کر جرنیلوں، بیورو کریٹس، ججوں اور اراکین پارلیمنٹ کو رعایتی نرخوں پر پلاٹس دینے کے حوالے سے بھی سوال کیا۔
دوسری طرف ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے باوجود وفاقی حکومت نے 17 ایسی وزارتوں پر 700 ارب روپے سے زیادہ پیسہ خرچ کیا ہے جو آئینی طور پر اب صوبائی حکومتوں کے ماتحت ہیں۔
ورلڈ بینک کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو اس بات کی تصدیق کی مالی سال 2021-22 میں تقریبا 710 ارب روپے خرچ کیے گئے ۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی شہباز رانا نے بھی ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی۔
یہ انکشافات ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب پاکستان شدید معاشی کساد بازاری سے گزر رہا ہے۔ بیرونی قرضوں کا حجم 115 بلین ڈالرز سے زیادہ ہے، جو اگلی دو دہائیوں میں چار سو بلین ڈالرز کے قریب پہنچ سکتا ہے۔ ملک میں مہنگائی عروج پر ہے جب کہ گزشتہ برس کے سیلاب کی وجہ سے 90 لاکھ سے زیادہ لوگ سطح غربت سے نیچے گر گئے ہیں۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپنے ایک بیان میں انکشاف کیا تھا کہ ملک میں غریب افراد کی تعداد اس وقت آٹھ کروڑ سے زیادہ ہے۔
پاکستان 2 بلین ڈالر کے قرض کے رول اوور پر چین کے فیصلے کا منتظر
پاکستان پر چین کے واجب الادا قرضوں پر امریکہ فکرمند کیوں؟
قومی دولت کا ضیاع
واضح رہے کہ کمیٹی کے اجلاس کے دوران نون لیگ کے ایم این اے برجیس طاہر نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ یہ چھ سو لوگ کون ہیں اور ان کی کیا تفصیلات ہیں۔ قومی اسمبلی کی قائمہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین قیصر احمد شیخ کا کہنا ہے کہ اس طرح کے قرضے قومی دولت کو ضائع کرنے کے مترادف ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اسٹیٹ بینک نے یہ قرض بلا سود دیے اور کمرشل بینک نے ایک یا دو فیصد سود لیا۔ زیادہ تر یہ قرضے کچھ مخصوص گروپ کو دیے گئے، جنہوں نے اپنے خاندان کے مختلف افراد کے نام پر یہ قرض حاصل کیا اور ایئر جیٹ مشینیں ٹیکسٹائل اور کچھ دوسرے سیکٹرز کے لئے مشینیں خریدی گئیں۔‘‘
قیصر احمد شیخ کے مطابق یہ مشینیں اب بے کار پڑی ہیں: ''تین بلین ڈالر دے کر زرمبادلہ کے ذخائر کو بالکل تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا۔ اگر یہ قرضہ زراعت اور چھوٹے سرمایہ کاروں کو دیا جاتا تو اس سے روزگار کے مواقع بھی بہتر پیدا ہوتے اور معیشت کو بھی فائدہ ہوتا۔‘‘
’بھاری سود کے ساتھ قرضہ واپس لیا جائے‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے معیشت دان ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ جس وقت یہ قرضہ دیا گیا تھا، اس وقت شرح سود تقریبا چھ فیصد تھی: ''پھر 2021ء میں یہ تقریباﹰ 9.7 فیصد ہوگئی تھی اور اس وقت تقریبا 21 فیصد ہے۔ تو اگر 21 فیصد کی شرح سے پیسہ وصول کیا جائے، تو پاکستان کے زرمبادلہ میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے اور ملکی معیشت کو سہارا بھی مل سکتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر قیس اسلم کے مطاب اگر قرضہ لینے والے سرمایہ دار یہ کہتے ہیں کہ وہ قرضہ سود کے ساتھ واپس نہیں کرتے ''تو پھر ان پر کارپوریٹ ٹیکس بڑھانا چاہیے۔ اس کے علاوہ کارپوریٹ سوشل ریسپانسبیلیٹی کے تحت انہیں مزدوروں کو صحت اور رہائش کی سہولتیں فراہم کرنی چاہییں۔‘‘
احتساب کی کمی
خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں تمام حکومتیں اپنے پیاروں کو نوازتی ہیں اور ایسی پالیسیاں بناتی ہیں، جس سے صرف امیروں کو فائدہ ہو۔ کراچی سے تعلق رکھنے والی معیشت دان ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکمراں بادشاہوں کی طرح حکومت کرتے ہیں اور افسر شاہی کا کوئی احتساب نہیں ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ تین ارب ڈالرز اس لیے دیے گئے کیونکہ اسٹیٹ بینک کے گورنرز کو بے تحاشہ اختیارات دیے گئے۔ میں نے اس وقت اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ پارلیمنٹ نے خود یہ اختیارات دیے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس لوٹ مار میں سب شامل ہیں۔‘‘
شاہدہ وزارت کا کہنا تھا کہ یہ پیسے ارکین پارلیمنٹ، قرضہ لینے والے اور گورنر اسٹیٹ بینک سے یہ پیسے وصول کیے جانے چاہییں۔
پالیسی کا دفاع
جہاں حکومتی حلقے اور کچھ معیشت دان پی ٹی آئی کی اس پالیسی پر تنقید کر رہے ہیں، و ہیں پی ٹی آئی اس کا دفاع کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ سابق مشیر برائے فوڈ سکیورٹی جمشید اقبال چیمہ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہماری یہ پالیسی بہت کامیاب رہی۔ ہمارے شروع کے وقت میں ایکسپورٹ 10 بلین ڈالر تھی، جو اس پالیسی کی وجہ سے 20 بلین ڈالرز تک پہنچی اور اگر ہم اقتدار میں رہتے تو ہماری کوشش تھی کہ ہم اس کو 25 بلین ڈالرز تک لے جائیں۔‘‘
جمشید چیمہ کے مطابق اسی طرح لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں 24 فیصد اضافہ ہوا جب کہ کنسٹرکشن اور مائننگ انڈسٹری کی کارکردگی بھی بہتر ہوئی۔