لانگ مارچ کے خلاف، پنجاب میں پولیس کا کریک ڈاؤن
11 مارچ 2009گرفتاریوں سے بچنے کے لئے وکلا ء اور سیاسی جماعتوں کے بیشتر رہنما منظر سے غائب ہو گئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے ایک رہنما کے مطابق لانگ مارچ میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کے کارکن ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت منظر سے غائب ہوئے ہیں۔ یہ کارکن گرفتاری سے اس لئے بچ رہے ہیں تا کہ لانگ مارچ والے دن بھر پور احتجاجی مظاہروں کے لئے زیادہ سے زیادہ افرادی قوت کی دستیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔
لاہور میں پنجاب کے دیگر حصوں کی طرح پولیس کے چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بعض سیاسی کارکنوں کے رشتہ داروں کی پکڑ دھکڑ کی بھی اطلاعات مل رہی ہیں۔ شہر میں داخلے کے تمام راستوں کی پولیس کے ذریعے نگرانی کی جا رہی ہے اورسیاسی جماعتوں کے دفاتر اور اہم رہنماؤں کے گھروں کے باہر سادہ لباس میں ملبوس اہلکار تعینات کئے گئے ہیں۔ شہر بھر میں لانگ مارچ کے حوالے سے لگائے جانے والے پوسٹرز اور بینرز اتار دئے گئے ہیں۔ کسی خفیہ مقام پرچھپے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق نے ڈوئچے ویلے کو ٹیلی فون کے ذریعے بتایا کہ صوبے کے بیشتر شہروں میں پنجاب پولیس کا کریک ڈاؤن جاری ہے اور وکلاء رہنماؤں، سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کی غیر قانونی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کے مطابق پولیس والے سیاسی کارکنوں کی گرفتاری سے پہلے کسی قسم کا وارنٹ گرفتاری بھی نہیں دکھا رہے ۔ ’’سیڑھیاں لے کر لوگوں کی چھتوں پر چڑھ جاتے ہیں اور چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے۔ یوں لگ رہا جیسے جنرل پرویز مشرف کا دور واپس آ گیا ہے۔ جمہوریت کی آواز بلند کرنے والوں کے ساتھ جو کچھ جنرل پرویز مشرف کرتا تھا وہی رویہ زرداری حکومت نے اپنایا ہوا ہے۔ یہ سارے اقدامات ریت کی دیوار ثابت ہو ں گے اور احتجاجی دھرنے کو نہیں روکا جا سکے گا۔‘‘
ادھر پنجاب حکومت نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ کسی نقصان سے بچنے کے لئے جلسے اور جلوسوں سے دور رہیں۔ پنجاب حکومت لاہور میں احتجاجی لانگ مارچ کے دنوں میں بسنت منانے کی اجازت دینے کی تجوےز پر بھی غور کررہی ہے۔ بدھ کے روز ایک پرےس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پنجاب کے سیکریٹری داخلہ راؤ افتخار علی نے بدھ کی سہ پہر صحافیوں کو بتایا کہ دھرنے اور لانگ مارچ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اگرچہ پنجاب میں سیاسی جماعتیں بدھ کی شام تک گرفتار کئے جانے والے کارکنوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد بتا رہی ہیں لیکن صوبائی وزیر داخلہ راؤ افتخار کا کہنا ہے کہ گرفتار کئے جانے والوں کی تعداد محض تین سو سے کچھ زیادہ ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ارکان پارلیمان کو گرفتار کئے جانے کی اطلاعات درست نہیں ہیں۔ ان کے مطابق صرف انہی لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے جو امن و امان کی صورت حال کو خراب کرنے یا شہریوں کی زندگی میں خلل ڈالنے کے مرتکب ہو رہے تھے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن نے سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ہیومن رائٹس کمشین آف پاکستان کے ڈائریکٹر آئی اے رحمن نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اجتماع منعقد کرنے اور اظہار رائے کا حق شہریوں کو آئین کے مطابق حاصل ہے اور انہیں اس سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے مطابق سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور لانگ مارچ میں حصہ لینے کے خواہش مند لوگوں کو ہراساں کرنے کے اقدامات جمہوری روایات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ان کے مطابق جمہوری حکومت کی طرف سے اس طرح کے آمرانہ اقدامات انہتائی افسوس ناک ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شاہد صدیقی نے بھی بدھ کی شام ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وکلا ء ہر قیمت پر لانگ مارچ کریں گے اور پروگرام کے مطابق شاہرہ دستور پر دھرنا ضرور دیا جائے گا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بدھ کی شام دن ڈھلنے کے بعد گوجرانوالہ میں پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ اور مسلم لےگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ اس موقع پر انہوں نے آصف علی زرداری اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس موقعے پر انہوں نے کہا کہ پنجاب میں نوکروڑ عوام کے حقوق پر ڈاکہ مارا گیا ہے۔ انہوں نے آصف علی زرداری سے پوچھا کہ آخر پنجابیوں نے کیا قصور کیا تھا "ہم تو پنجاب میں رہتے ہوئے دیگر صوبوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے تھے۔‘‘
انہوں نے کہا :’’ زرداری صاحب بتائیں کہ کیا میرا یہ قصور تھا کہ میں نے پاکستان کے باقی صوبوں کے ساتھ بھائی چارے اور دوستی کی فضا ء قائم کی اس لئے مجھے سزا دی گئی ۔ اگر یہ جرم ہے تو میں یہ جرم سو بار کروں گا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ وہ نظام جس میں انصاف بکے وہ اس نظام کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہیں۔