لاپتہ سعودی صحافی: ترک صدر ایردوآن کی شاہ سلمان سے گفتگو
15 اکتوبر 2018انقرہ میں ترک صدر کے دفتر کی طرف سے پیر 15 اکتوبر کو بتایا گیا کہ ریاض حکومت کے ناقد سعودی صحافی جمال خاشقجی کی استنبول میں قریب دو ہفتے قبل اچانک گمشدگی کے بعد سے ترک صدر ایردوآن نے اس بارے میں پہلی بار ٹیلی فون پر سعودی عرب کے شاہ سلمان کے ساتھ بات چیت کی ہے۔ ترک صدارتی دفتر کے مطابق اس بات چیت میں ’خاشقجی کے پراسرار طور پر لاپتہ ہو جانے کے واقعے پر روشنی ڈالنے کی کوشش‘ کی گئی۔
ریاض میں سعودی وزارت خارجہ کے مطابق اس مکالمت میں شاہ سلمان نے ترکی اور سعودی عرب کے مابین ’مضبوط تعلقات‘ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ریاض اور انقرہ دونوں میں سے ’کوئی بھی نہیں چاہتا کہ دو طرفہ روابط کی مضبوطی اور گہرائی متاثر ہو‘۔
اس کے علاوہ شاہ سلمان نے اس وجہ سے بھی ترک سربراہ مملکت کا شکریہ ادا کیا کہ صدر ایردوآن جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے کی وضاحت کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیشن کے قیام پر راضی ہو چکے ہیں۔
ایجنٹوں کے ہاتھوں قتل؟
جمال خاشقجی، جو امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار تھے، دو اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں داخل ہوئے تھے تاکہ وہاں سے ایک ترک خاتون کے ساتھ اپنی شادی سے متعلق قانونی دستاویزات حاصل کر سکیں۔ لیکن یہ 60 سالہ سعودی صحافی قونصل خانے جانے کے بعد سے لاپتہ ہیں۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق ترک حکام کا خیال ہے کہ جمال خاشقجی کو ایسے اسپیشل کمانڈوز نے قتل کیا، جو اس مقصد کے لیے خاص طور پر سعودی عرب سے ترکی آئے تھے۔ اس کے علاوہ مبینہ طور پر اس قتل سے متعلق ویڈیو اور آڈیو ریکارڈنگز بھی موجود ہیں۔
سعودی عرب کی حکومت تاہم ایسے تمام الزامات مسترد کرتی ہے۔ دوسری طرف ریاض میں حکمران ابھی تک اس سلسلے میں بھی کوئی شواہد پیش نہیں کر سکے کہ جمال خاشقجی استنبول میں سعودی قونصلیٹ سے زندہ باہر نکلے تھے۔
دریں اثناء سعودی عرب پر امریکا کے علاوہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ کی طرف سے بھی کافی سفارتی دباؤ ہے۔ اب ان تینوں یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ نے بھی ریاض حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے کی جلد از جلد وضاحت کو یقینی بنائے۔
ان تینوں یورپی وزرائے خارجہ کے اتوار 14 اکتوبر کو جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا، ’’ہم اس معاملے کو بڑی سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور اس بارے میں سعودی حکومت کی طرف سے ایک مفصل اور جامع جواب کے انتظار میں ہیں۔‘‘
م م / ع س / ڈی پی اے، اے ایف پی