لبنان میں مقیم شامی مہاجرین کو شدید استحصال کا خطرہ
12 جنوری 2016تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن نے ہیومن رائٹس واچ کے حوالے سے بتایا ہے کہ لبنانی حکومت نے شامی تارکین وطن کے لیے رہائشی اجازت ناموں کی تجدید کے لیے دو سو ڈالر فیس مقرر کر رکھی ہے۔ یہ رقم امداد پر زندگی گزارنے والے بیشتر شامی تارکین وطن کے لیے بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے وہ اجازت ناموں کی تجدید نہیں کر پا رہے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے مشرق وسطیٰ میں ڈپٹی ڈائریکٹر ندیم حوری نے خبردار کیا ہے کہ اس فیس کے باعث ’مہاجرین کے لیے زندگی گزارنا ناممکن ہو رہا ہے اور یہ ان کی مجموعی حالت کو خراب تر کرنے کے مترادف ہے۔
شام میں جاری خانہ جنگی کی وجہ سے دس لاکھ سے زائد شامی شہری لبنان میں پناہ لیے ہوئے ہیں جو کہ آبادی کے تناسب کے لحاظ سے اِس وقت دنیا میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے چالیس شامی مہاجرین کا انٹرویو کیا جن میں سے صرف دو افراد ہی نئے رہائشی اجازت نامے حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ حوری کا کہنا ہے، ’’قانونی دستاویزات اور شناخت کے بغیر لبنان میں رہنے والے شامی مہاجرین کو شدید استحصال کا خطرہ ہو سکتا ہے۔‘‘
انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ قانونی حیثیت نہ ہونے کی وجہ سے شامی پناہ گزین کسی بھی استحصال کی صورت میں لبنانی حکام سے قانونی معاونت حاصل نہیں کر سکتے۔ ایچ آر ڈبلیو کے مطابق قانونی حیثیت کے بغیر لبنان میں رہنے والے تارکین وطن کی حتمی تعداد کے بارے میں معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
غلاموں جیسی زندگی
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق رہائشی اجازت ناموں کی تجدید کے درخواست دہندگان دو گروپ ہیں۔ ایک گروپ میں شامل پناہ گزین اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں جب کہ دوسرے گروپ میں ایسے تارکین وطن جنہیں لبنان میں رہنے کے لیے کفیل تلاش کرنا پڑتا ہے۔
لبنانی حکام یو این ایچ سی آر کے ساتھ رجسٹرڈ پناہ گزینوں سے بھی کفیل حاصل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں حالانکہ ضوابط کے مطابق انہیں کفیل کی ضرورت نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی علمبردار تنظیم کے مطابق ایسی اطلاعات بھی موجود ہیں کہ مہاجرین کو ایک ہزار ڈالر کے عوض کفیل فراہم کیا جا رہا ہے۔
عامر نامی ایک شامی پناہ گزین نے ایچ آر ڈبلیو کو بتایا ہے کہ وہ اپنے کفیل کے پاس ہی ملازمت کرتا ہے۔ عامر کا کہنا ہے، ’’میرا کفیل مجھ سے بارہ بارہ گھنٹے کام کراتا ہے۔ شکایت کروں تو وہ مجھے سپانسرشب ختم کرنے کی دھمکی دیتا ہے۔ میرے پاس کام کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے جیسے میں اس کا غلام ہوں۔‘‘
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ قانونی حیثیت کے بغیر رہنے والوں کو حکام کی جانب سے گرفتار کر لیے جانے کا خطرہ بھی ہے۔ علاوہ ازیں یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ غیر قانونی طور پر لبنان میں رہنے والے پناہ گزینوں کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کی حیثیت بھی ’بے وطن‘ کی ہو گی۔