لندن: جولیان اسانج کے خلاف عدالتی فیصلہ
24 فروری 2011واضح رہے کہ اسانج نے وکی لیکس کے ذریعے امریکی سفارت خانوں کی خفیہ اور حساس دستاویزات شائع کر دی تھیں، جس کے بعد سے ان کو امریکی انتظامیہ کی برہمی کا سامنا ہے۔ ان سفارتی دستاویزات میں امریکی سفارت کاروں کی وہ خط و کتابت بھی شامل ہے، جس میں وہ مختلف ممالک اور ان کے رہنماؤں اور خاص طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
ان دستاویزات کی وکی لیکس ویب سائٹ پر اشاعت کے بعد سے اسانج کو عالمی شہرت حاصل ہو چکی ہے۔
لندن کی ایک عدالت کے جج ہاورڈ رڈل نے جمعرات کے روز اپنا فیصلہ سناتے ہوئے اسانج کی اس دلیل کو مسترد کر دیا کہ سویڈن میں ان کے خلاف مقدمہ شفاف نہیں ہوگا۔ اسانج نے فیصلے کے فوراً بعد اس کے خلاف اپیل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
اسانج کا موقف ہے کہ ان کے خلاف گزشتہ برس اگست میں دو خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کا الزام امریکی دباؤ کا نتیجہ ہے اور اس الزام کی نوعیت سیاسی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ وکی لیکس پر امریکی دستاویزات شائع کرنے کی پاداش میں ہے۔
برطانوی عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے یہ بھی کہا کہ جولیان اسانج اور ان کے وکیل نے عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ عدالت نے ان کی یہ دلیل بھی رد کر دی کہ اسانج کی گرفتاری کے لیے جاری کیا جانے والا وارنٹ غیر قانونی ہے۔ جج ہاورڈ رڈل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ان کو یورپی اداروں پر پورا اعتماد ہے۔
وکی لیکس کے خالق اسانج کو برطانیہ میں سات دسمبر 2010ء کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کو نو دن تک حراست میں رکھا گیا تاہم بعد میں وہ ضمانت پر رہا کردیے گئے تھے۔ تب سے اب تک وہ مشرقی لندن میں اپنے ایک دوست کے گھر میں مقیم ہیں جہاں ان کی کڑی نگرانی کی جا رہی ہے۔
وکی لیکس کو جدید میڈیا کے دور میں ایک منفرد حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ حال ہی میں اسانج نے ایک بیان میں کہا تھا کہ تیونس میں صدر زین العابدین اور مصر میں حسنی مبارک کی حکومتوں کے خاتمے میں وکی لیکس نے بھی ایک بڑا کردار ادا کیا ہے۔
رپورٹ: شامل شمس ⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک