لندن میں لاکھوں شہریوں کا بریگزٹ کے خلاف احتجاجی مارچ
23 مارچ 2019لندن سے موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق برطانیہ میں بریگزٹ اب ایک ایسا موضوع بن چکا ہے، جو ممکنہ طور پر وزیر اعظم ٹریزا مے کی وزارت عظمیٰ کو بھی لے ڈوبے گا۔ مے دو مرتبہ پارلیمانی رائے شماری کے باوجود اپنے یورپی یونین کے ساتھ طے پانے والے بریگزٹ معاہدے کو ابھی تک دارالعوام سے منظور نہیں کروا سکیں۔
اسی دوران وہ یورپی یونین کی قیادت کو ایک خط لکھ کر یہ باقاعدہ درخواست بھی کر چکی ہیں کہ برسلز میں یورپی رہنما برطانیہ کے پروگرام کے مطابق انتیس مارچ تک یورپی یونین سے اخراج کے عمل میں تاخیر پر رضا مندی ظاہر کر دیں۔
روئٹرز نے لکھا ہے کہ 2016ء میں برطانیہ میں ہونے والے عوامی ریفرنڈم کے تین سال بعد بھی یہ بات اب تک غیر واضح ہے کہ لندن یونین سے نکلے گا تو کب تک اور کن حالات میں۔ اسی دوران برطانیہ میں عوامی سطح پر ایک بار پھر یہ آوازیں بھی بہت بلند ہوتی جا رہی ہیں کہ بریگزٹ کا فیصلہ ہی غلط تھا اور برطانیہ کو آئندہ بھی یورپی یونین ہی میں رہنا چاہیے۔
یہ مطالبہ صرف عوامی سطح پر ہی نہیں کیا جا رہا بلکہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت لیبر پارٹی نے بھی اب کہہ دیا ہے کہ ملک میں بریگزٹ کے موضوع پر ایک نیا ریفرنڈم غلط نہیں ہو گا۔
دوسری طرف گزشتہ چند روز کے اندر اندر برطانیہ کے تقریباﹰ چار لاکھ شہری اس درخواست پر دستخط کر چکے ہیں کہ ملک میں ایک نیا بریگزٹ ریفرنڈم کرایا جائے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ تعداد عام شہریوں کے طور پر درخواست دہندگان کی اس کم سے کم تعداد سے بہت زیادہ ہے، جس کے بعد کسی بھی موضوع پر روایتی طور پر پارلیمان میں بحث کا آغاز لازمی سمجھا جاتا ہے۔
منتظمین کے مطابق لندن میں آج کا احتجاجی مارچ بریگزٹ کے خلاف آج تک کا سب سے بڑا عوامی مظاہرہ تھا، جس میں ایک ملین سے زائد افراد نے شرکت کی۔ اس سے قبل گزشتہ برس اکتوبر میں ایسے ہی ایک مارچ میں سات لاکھ کے قریب برطانوی شہری شامل ہوئے تھے۔
آج ہفتے کو لندن کے وسطی حصے میں اس مارچ کے لاکھوں شرکاء نے جو پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، ان پر درج تھا کہ بریگزٹ کا ’بہترین فیصلہ ایک نیا عوامی فیصلہ ہی ہو سکتا ہے‘۔ اس کے علاوہ بہت سے پہلے کارڈز پر اس طرح کے نعرے بھی لکھے ہوئے تھے: ’’بریگزٹ کی بہترین ڈیل یہ ہے کہ بریگزٹ ہی کو ترک کر دیا جائے۔‘‘
م م / ع ح / روئٹرز