1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ليبيا ميں ترک نواز شامی جنگجو موجود ہيں، ترک صدر

21 فروری 2020

ترک صدر رجب طيب ایردوآن نے پہلی مرتبہ باقاعدہ طور پر اس بات کی تصديق کی ہے کہ ليبيا ميں تربيتی دستوں کے ہمراہ ترک نواز شامی جنگجو موجود ہيں، جنہيں انقرہ حکومت نے روانہ کيا تھا۔

https://p.dw.com/p/3Y9Ka
Türkei Präsident Erdogan im Parlament
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan

استنبول ميں رپورٹرز سے بات چيت کرتے ہوئے ایردوآن نے کہا، ''ترکی کی تربيتی فورسز ليبيا ميں ہيں۔ اس کے علاوہ سیریئن نيشنل آرمی کے جنگجو بھی وہاں سرگرم ہيں۔‘‘سیریئن نيشنل آرمی شامی باغيوں پر مشتمل فورس ہے، جسے پہلے فری سیریئن آرمی کے نام سے جانا جاتا تھا۔

ترک حکومت ليبيا ميں اقوام متحدہ کی حمايت يافتہ حکومت (GNA) کی حامی ہے۔ اس حکومت کا مرکز طرابلس ميں ہے اور پچھلے سال کے اواخر ميں ايک معاہدے کے بعد ترکی نے طرابلس حکومت کی مدد کے ليے تربيتی فوجی دستے بھی روانہ کيے تھے۔ طرابلس حکومت کو کئی ماہ سے کمانڈر خليفہ حفتر کی حامی افواج کے حملوں کا سامنا ہے، جنہيں روس کی حمايت حاصل ہے۔ اس سال جنوری ميں جنيوا ميں امن مذاکرات کے دو ادوار منعقد ہوئے، جن ميں فريقين نےحصہ ليا تھا اور جنگ بندی کے معاہدے کو حتمی شکل بھی دی تاہم اس کی خلاف ورزی مسلسل جاری ہے۔

Libyen Tripoli 2019 | Kämpfer der GNA
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency

جمعے اکيس فروری کو اپنے ايک بيان ميں خليفہ حفتر نے کہا ہے کہ جنگ بندی کے ليے ان کی شرائط ہيں کہ ليبيا سے تمام شامی و ترک جنگجو واپس جائيں اور انقرہ حکومت طرابلس حکومت کو اسلحے کی فراہمی بند کرے۔ دوسری جانب ایردوآن کا دعوی ہے کہ روس نے 'واگنر‘ نامی ايک نجی کمپنی کے ڈھائی ہزار جنگجو ليبيا روانہ کيے ہيں۔ روس نے اس الزام کی ترديد کی ہے۔ ترک صدر کا يہ بھی الزام ہے کہ حفتر کو لگ بھگ پندرہ ہزار 'دہشت گردوں‘ کی حمايت حاصل ہے۔ ایردوآن کے مطابق متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب بھی حفتر کی پشت پناہی کر رہے ہيں۔

ع س / ع ا، نيوز ايجنسياں