لیبیا میں انسانیت کے خلاف مبینہ جرائم
1 مارچ 2011ہالینڈ کے دارالحکومت دی ہیگ میں واقع عالمی فوجداری عدالت کے چیف پروسیکیوٹر لوئیس مورینو اوکامپو نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے تجویز پیش کیے جانے کے بعد ان کا دفتر غور کر رہا ہے کہ آیا لیبیا کے حکام کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب کے الزام میں مقدمہ دائر کیا جانا چاہیے۔ اقوام متحدہ نے ICC سے کہا تھا کہ قذافی اور ان کے ساتھی حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ حملوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے AFP نے مورینو اوکامپو کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا، ’ان الزامات کے تحت انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب کا مقدمہ دائر کیا جا سکتا ہے۔‘ انہوں نے زور دیا کہ لیبیا کے حکام فوری طور پر ایسے پر تشدد اقدامات ترک کر دیں۔ بتایا گیا ہے کہ آئندہ کچھ دنوں میں ابتدائی تحقیقات کے بعد ICC یہ فیصلہ کر لے گی کہ آیا ان الزامات کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے یا نہیں۔
مختلف اعداد و شمار کے مطابق لیبیا میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے کیے گئے پر تشدد کریک ڈاؤن کے نتیجے میں کم از کم ایک ہزار مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس ملک کی ابتر صورتحال کے نتیجے میں وہاں انسانی بحران پیدا ہو چکا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ پندرہ فروری سے شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں اور مظاہرین پر سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن کی وجہ سے کم ازکم ایک لاکھ افراد ملک چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر تعداد لیبیا میں مقیم غیر ملکی کارکنوں کی بتائی جا رہی ہے۔
لیبیا میں بگڑتے ہوئے حالات کو دیکھتے ہوئے ہفتے کے دن اقوام متحدہ نے یہ معاملہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے سپرد کر دیا تھا۔ مورینو اوکامپو نے بتایا، ’ایسی خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ حکومت نواز فورسز لیبیا میں شہریوں پر حملہ آور ہو رہی ہیں۔ اگر فوجی، ٹینک اور جنگی جہاز استمعال کیے جا رہے ہیں اور شہریوں کو منصوبہ بندی کے ساتھ ہلاک کیا جا رہا ہے تو یہ انسانیت کے خلاف جرائم ہیں۔‘ دی ہیگ کی اس عدالت کے چیف پروسیکیوٹر کے بقول، وہ اس حوالے سے فوری اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کروائیں گے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: مقبول ملک