ماسکو دہشت گردی:روسی شبہات اور امریکی تعاون
30 مارچ 2010روسی حکام کے مطابق پیرکو ماسکو میں دو مبینہ خواتین خودکش بمباروں نے دو مختلف زیر زمین ریلوے اسٹیشنوں کو نشانہ بنایا جس میں کم از کم 38 ہلاک اور 60 سے زائد زخمی ہوئے۔ کینیڈا میں صحافیوں سے بات چیت میں روسی وزیر خارجہ سیرگئی لیو روف نے کہا کہ بیرونی عوامل کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے بقول سب جانتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع قبائلی علاقوں میں بین الاقوامی دہشت گردی کی منصوبہ بندی کی جاتی رہی ہے۔
امریکی صدر باراک اوباما نے واقعے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائیوں میں روس کو تعاون کی پیش کش کی ہے۔ اوباما نے اپنے روسی ہم منصب دیمتری میدویدیف کو ٹیلی فون کرکے واقعے کی مذمت کی اور کہا کہ امریکی عوام دکھ کی اس گھڑی میں روسی عوام کے ساتھ ہیں۔ امریکی صدر نے واقعے کو مشتعل شدت پسندوں کی انسانیت مخالف کارروائی قرار دیا۔
دیگر مغربی ممالک نے بھی شدت پسندی کے خلاف روس کو تعاون فراہم کرنے کی یقینی دہانی کرائی۔ نیٹو کے سیکریٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون، یورپی اتحاد کے صدر ہیرمن فان رومپوئے، جرمن چانسلر انگیلا میرکل، فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی ، برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن، چینی صدر ہوجن تاؤ اور فلسطینی صدر محمود عباس سمیت متعدد نے واقعے کی مذمت کی۔
سارکوزی کے بقول امریکہ پر کئے گئے 11 ستمبر کے حملوں اور روس میں ہوئے حالیہ حملوں میں کوئی فرق نہیں۔
روسی سلامتی کے اداروں کے مطابق دارالحکومت میں کئے گئے ان حملوں میں شورش زدہ شمالی قفقاذ کے عسکریت پسند ملوث ہوسکتے ہیں۔ خفیہ ادارے ایف ایس بی نے چیچنیا اور انگوشیتیا کے مزاحمتی گروہ کی جانب اشارہ کیا ہے۔ روسی صدر ولادی میر پوتن کے بقول ملوث افراد کو ’تباہ‘ کردیا جائے گا۔ پوتن چیچن باغیوں کے خلاف عسکری کارروائیوں میں شدت لانے اور دہشت گردانہ کارروائیوں پر قابو پانے کے حوالے سے خاصے مشہور ہوئے تھے۔
یاد رہے کہ روسی دارالحکومت ماسکو سے سینٹ پیٹرزبرگ شہر جانے والی ایک ریل گاڑی کو گزشتہ سال نومبر میں ایک بم حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا جس میں 26 ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے چیچنیا میں سرگرم ’مجاہدین کوہ قاف‘ نامی تنظیم نے مزید حملوں کی دھمکی دی تھی۔ چیچن باغیوں نے کچھ عرصہ قبل روسی معیشت کو نشانہ بنانے کے لئے اسی نوعیت کے حملے کرنے کی دھمکی دی تھی۔
امکان ہے کہ موجودہ صدر میدویدیف پر دباؤ بڑھے کہ وہ تشدد کی لہر کی مبینہ وجوہات یعنی بدعنوانی اور غربت پر توجہ کے بجائے طاقت کے استعمال کی پالیسی اختیار کریں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اس خطے میں تحریک کو دبانے کے لئے طاقت کے استعمال نے مزاحمتی تحریک کو مزید جارحانہ کردیا ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت : عابد حسین