مالکی، علاوی مذاکرات: تعطل کا شکار
17 اگست 2010متحدہ حکومت سازی کے لئے جاری کوششوں میں یہ نیا تعطل اس وقت سامنے آیا جب نوری المالکی نے اپنے ایک نشریاتی خطاب میں العراقیہ کو سنی فرقے کی نمائندگی کرنے والا ایک سیاسی اتحاد قرار دیا۔ اس بیان کے بعد ایاد علاوی نے احتجاج کے طور پر مذاکرات کا سلسلہ روکتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ المالکی اپنے اس بیان پر ٹیلی وژن پر ہی معافی مانگیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی سیاسی جماعت فرقوں سے مبرا ہے اور اس میں تمام فرقوں سے وابستہ لوگوں کو نمائندگی حاصل ہے۔
العراقیہ پارٹی کے ترجمان Maysoon al-Damaluji نے صحافیوں کا بتایا، ’’ ہمارا مطالبہ ہے کہ نوری المالکی نہ صرف العراقیہ پارٹی سے معافی مانگیں بلکہ ان ووٹروں سے بھی معذرت طلب کریں جنہوں نے العراقیہ کو ووٹ ڈالا اور جوفرقہ واریت سے بالاتر ہیں۔‘‘
عراق میں پانچ ماہ قبل مارچ کے مہینے میں پارلیمانی انتخابات منعقد کئے گئے تھے تاہم ان انتخابات میں کوئی بھی پارٹی اکیلے ہی حکومت سازی کے لئے قطعی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔ کل 325 نشستوں پر مشتمل پارلیمانی ایوان کے لئے العراقیہ پارٹی نے 91 جبکہ نوری المالکی کی سیاسی جماعت نے 89 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔
ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والا سب سے بڑا سیاسی اتحاد، سنی سیاسی جماعتوں کا ہے، جس کی صدرات ایاد علاوی کر رہے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر آنے والا اتحاد وزیر اعظم نوری المالکی کا ہے۔ اس اتحاد میں شعیہ سیاسی جماعتوں کی اکثریت ہے۔
متحدہ حکومت سازی میں ایک بڑی رکاوٹ وزیر اعظم کا منصب بھی ہے۔ المالکی اورعلاوی دونوں ہی اس پوزیشن پر براجمان ہونا چاہتے ہیں،جس کی وجہ سے سیاسی پیچیدگیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ عراق میں پارلیمانی انتخابات کے پانچ ماہ گزرنے کے باوجود نئی حکومت وجود میں نہ آنے کے باعث ملک میں سکیورٹی کی صورتحال ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں پیدا ہونے والے سیاسی خلاء کے نتیجے میں شرپسند عناصر فائدہ اٹھا رہے ہیں اور پر تشدد کارراوئیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: افسر اعوان