مریخ پر ’آلو‘ اگائے جا سکتے ہیں
30 مارچ 2017پیرو کے خشک صحرائی علاقے میں سائنس دانوں نے ایک فریج میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بلند سطح کی موجودگی میں آلو اگانے کا کامیاب تجربہ کر لیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ تجربہ گو کے ابتدائی مراحل میں ہے، تاہم بین الاقوامی پٹیٹو سینٹر کے محققین کو یقین ہے کہ نتائج حوصلہ افزا ہیں اور ایک دن مریخ پر اسی طریقے سے آلو اگائے جا سکے ہیں، جو مستقبل میں وہاں جانے والے خلانوردوں کے لیے انتہائی کارآمد ہوں گے۔ سائنس دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں زیادہ متاثرہ خطوں میں بھی اسی طریقے سے آلوؤں کی پیدوار وہاں بسنے والے انسانوں کے لیے زندگی کی امید بن سکتی ہے۔
پیرو یونیورسٹی برائے اینجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے ایسٹروبائیلوجسٹ اور اس پروجیکٹ سے وابستہ امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا کے جولیو والدیوویا کا کہنا ہے،’’اس تجربے کا مقصد آلو مریخ پر پہنچانا ہی نہیں ہے بلکہ غیر زرعی زمینی علاقوں میں بھی سخت حالات میں آلوؤں کی پیدوار بھی ہے۔‘‘
اس تجربے کا آغاز سن 2016ء میں ہوا تھا۔ اسی برس ہالی وڈ کی فلم ’دی مارٹشین‘ بھی ریلیز ہوئی تھی، جس میں مریخ پر پھنس جانے والے خلانورد کو وہاں اپنی بقا کے لیے آلو اگاتے دکھایا گیا تھا۔
اس تجربہ گاہ میں درجہ حرارت نکتہ انجماد سے کئی درجے نیچے اور کاربن مونو آکسائیڈ کی بلند سطح کے ساتھ ساتھ مریخ ہی کی طرح ہوا کا دباؤ چھ ہزار میٹر کی بلندی کے برابر رکھا گیا تھا، جب کہ سورج کی روشنی بھی مریخ ہی کے دن اور رات کی طرز پر استوار کی گئی تھی۔
گو کہ اس تجربے کے لیے ہدایات کیلی فورنیا میں قائم ناسا کے ایمرس ریسرچ سینٹر سے دی جا رہی تھی، تاہم تجربے کے لیے پیرو کو موضوع ترین مقام قرار دیا گیا تھا۔ پیرو ہی کی جھیل ٹیٹیکاکا کے قریب آلوؤں کی ایک مقامی قسم کی پیداوار کا سلسلہ سات ہزار برس قبل شروع ہوا تھا۔ پیرو، بولیویا اور ایکواڈور میں آلوؤں کی چار ہزار اقسام پائی جاتی ہیں۔