کشمیر پر اب 'بیان بازی کا نہیں عملی اقدامات کا وقت ہے'
6 اگست 2020بھارت نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل میں چین کے جانب سے مسئلہ کشمیر کو اٹھانے کی کوشش کو مسترد کرتے ہوئے پھر کہا ہے کہ یہ اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔ بھارت کا دعوی ہے کہ چین کو اس بارے میں عالمی برادری کی جانب سے زیادہ حمایت حاصل نہیں ہے اور اسے ان غیر ضروری کوششوں سے باز رہنا چاہیے۔
چین نے کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے تعلق سے بدھ پانچ اگست کو سلامتی کاونسل ارکان کی توجہ خطے کی جانب مبذول کرائی۔گزشتہ برس پانچ اگست کو ہی بھارت نے کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی اختیارات منسوخ کر دیے تھے اور اسے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ چین نے اسی موقع کی مناسبت سے سکیورٹی کاؤنسل میں کشمیر کی صورت حال کا ذکر کیا۔
گزشتہ ایک برس میں یہ تیسرا موقع تھا جب سکیورٹی کونسل میں کشمیر کا مسئلہ اجاگر کیا گیا تاہم پہلے کی طرح اس بار کسی خاص قرارداد پر نہ تو بحث ہوئی اور نہ ہی کوئی ایسی قرارداد منظور کی گئی۔ اس موقع پر چینی وزارت خارجہ نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ کشمیر میں پانچ اگست کے تعلق سے بھارتی اقدامات ''غیر قانونی اور پوری طرح سے غلط ہیں۔''
بیجنگ میں وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے کہا، خطہ کشمیر کے حالات پر کشمیر کی قریبی نظر ہے۔ کشمیر کے تعلق سے ہمارا موقف مستقل اور واضح ہے۔ پہلا تو یہ کہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل کی مختلف قراردادوں اور دو طرفہ معاہدوں کے حساب سے بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک تاریخی تنازعہ ہے۔ دوسرا یہ کہ خطہ کشمیر میں کسی جانب سے یکطرفہ تبدیلی غیر قانونی اور غلط ہے۔ تیسرے یہ کہ مسئلہ کشمیر سے متعلق فریقین کے درمیان صلاح و مشورے، بات چیت اور پرامن انداز میں مناسب طریقے سے اسے حل کیا جا نا چاہیے۔''
نئی دہلی میں بھارتی وزارت خارجہ نے چین کے ان بیانات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت سے تعبیرکیا ہے۔ اس کا کہنا تھا، ''ہم نے اس بات کا نوٹس لیا ہے کہ چین نے سکیورٹی کونسل میں کشمیر پر بحث کا آغاز کیا۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ چین نے اس موضوع کو چھیڑا ہے جس کا تعلق بھارت کے داخلی امور سے ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسی کوششوں کو عالمی برادری کی جانب سے کوئی بہت زیادہ حمایت نہیں ملی ہے۔''
اس دوران جینوا میں انسانی حقوق کے ماہرین نے بھارت اور عالمی برادری سے کشمیر میں خوفناک اور بگڑتی ہوئی انسانی حقوق کی صورت حال پر فوری اقدامت کرنے کو کہا ہے۔ ماہرین نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ اگر "بھارت کشمیر کی صورتحال کو درست کرنے، تاریخی اور حالیہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفتیش اور تشدد کو روکنے کے لیے فوری طور پر اقدمات کر کے اپنے فرائض پورے نہیں کرتا ہے تو پھر عالمی برادری کو آگے بڑھانا ہوگا۔"
کشمیر میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کا کہنا ہے کہ بھارت کے ان اقدامات کا اثر یہ ہوا ہے کہ مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر ایک بار پھر اجاگر ہوا ہے۔ انسانی حقوق کے سرکردہ کارکن امروز پرویز کہتے ہیں کہ ''کشمیروں کے لیے یہ برس ہولناکیوں سے پر رہا ہے تاہم اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کافی ہائی لائٹ بھی ہوا ہے۔''
ایک اور سرکردہ کارکن خرم پرویز کشمیر سے متعلق سکیورٹی کونسل میں بات چیت کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ یہاں کی خراب ہوتی صورتحال کا عکاس ہے۔ ڈبی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ''لیکن اس طرح کے مذمتی بیانات علامتی ہیں۔ بھارتی حکومت کے رویے سے عیاں ہے کہ آنے والے دنوں میں یہاں حالات مزید خراب ہوں گے اس لیے اب بیانات سے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔''
انہوں نے کہا کہ کشمیر میں بھارتی حکومت جس طرح کی کارراوائیاں کر رہی ہے اس تناظر میں عالمی برادری کا رویہ دوہرے معیار کا لگتا ہے۔ ''ہانگ کانگ میں متنازعہ سکیورٹی قانون کے تعلق سے عالمی برادری نے سخت رد عمل کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کا بھی اعلان کیا ہے۔ کشمیر میں تو بھارت اس سے بھی سخت اقدامات کر رہا ہے لیکن صرف بیانات آتے رہے ہیں ابھی تک کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری عملی اقدامات کرے ورنہ یہاں مشکلیں بڑھنے والی ہیں۔''
خرم پرویز کا کہنا ہے کہ چین اور پاکستان کا خطے میں اپنا مفاد ہے اور اسی لیے وہ کشمیر کے حوالے سے آواز اٹھاتے ہیں تاہم عالمی برادری اس میں جب تک فعال کردار ادا نہیں کرتی اس وقت تک انسانی حقوق کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔