مسیحی گورنر کو گرفتار کیا جائے، انڈونیشی مسلمان مظاہرین
4 نومبر 2016انڈونیشی دارالحکومت جکارتہ میں ہزاروں مسلمانوں نے توہین مذہب کے شبے میں ایک علاقائی مسیحی گورنر کے خلاف ایک بڑا احتجاج کیا ہے۔ مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ باسوکی پورنما عرف اہوک کو گرفتار کر کے تادیبی کارروائی کرے۔ مظاہرین جکارتہ کی سب سے بڑی استقلال مسجد میں جمع ہوئے تھے۔
مسجد استقلال میں مظاہرے کا اہتمام انتہا پسند اور کٹر عقیدے کے گروپ اسلامک ڈیفنڈرز فرنٹ نے کیا۔ اس گروپ کے ترجمان منامان نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گورنر اہوک کو ہر قیمت پر گرفتار کیا جائے اور توہین مذہب کے قانون کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔
دوسری جانب پولیس نے انتہا پسندوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ملک میں افراتفری پھیلانے کی کوشش سے گریز کریں۔ ملکی پولیس کے سربراہ ٹیٹو کارناویان نے کہا ہے کہ اسلامک ڈیفنڈرز فرنٹ کے رہنماؤں پر واضح کر دیا گیا تھا کہ اُن کی احتجاجی ریلی پرامن رہنی ضروری ہے کیونکہ حکومت نہیں چاہتی کہ انڈونیشیا میں بھی مشرقِ وسطیٰ کے بعض ملکوں جیسا انتشار پیدا ہو جائے۔
مظاہرین کے مطابق پورنما نے آئندہ برس ہونے والے الیکشن کی مہم کے دوران قرآن کی ایک سورة کی آیت کا غلط استعمال کیا ہے۔ سخت عقیدے کے حامل مسسلمان مذہبی علما قران کی سورہ المائدہ کی ایک آیت کو استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک غیر مسلم مسلمانوں کا انتظامی عامل مقرر نہیں کیا جا سکتا۔ مظاہرین کے مطابق مسیحی لیڈر نے قرآنی آیت سے اپنے مسلمان ووٹرز کو بہکانے اور دھوکا دینے کی کوشش کی تھی۔
گورنر اہوک چینی نژاد ہیں اور مسیحی عقیدے کے حامل ہیں۔ وہ جکارتہ میں پہلے غیر مسلم گورنر منتخب ہوئے تھے۔ اسی دوران سابق صدر سوسیلو بامبانگ یدھویونو کے بیٹے نے پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اہوک کے بیان کے حوالے سے اپنا تفتیشی عمل شروع کرے۔ سابق صدر کے صاحبزادے بھی جکارتہ کی گورنری کے الیکشن کے ایک امیدوار ہیں۔ گورنرشپ کا الیکشن اگلے برس پندرہ فروری کو ہو گا۔
انڈونیشی قانون کے مطابق توہین مذہب کا ارتکاب کرنےکا جرم ثابت ہونے پر کم از کم پانچ برس کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔ دریں اثنا موجودہ سیاسی افراتفری کے نتیجے میں جکارتہ حکومت نے ایسی گیارہ ویب سائٹس پر پابندی عائد کر دی ہے جو مذہبی بےچینی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی و سماجی انتشار پھیلانے کی مرتکب ہو رہی تھیں۔