مشتبہ سعودی قاتل ترکی کے حوالے کیے جائیں، انقرہ کا مطالبہ
27 اکتوبر 2018ترک حکام کے مطابق انہوں نے اب تک سعودی حکمرانوں کے ناقد صحافی اور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خاشقجی کے استنبول کے سعودی سفارت خانے میں دو اکتوبر کو پہلے سے بنائے گئے منصوبے کے تحت قتل سے متعلق جتنی بھی تفتیش کی ہے، اس کے بعد انقرہ حکومت کی خواہش ہے کہ اس قتل کا مقدمہ ترکی ہی کی ایک عدالت میں چلایا جائے۔
اس مقصد کے لیے سعودی حکام کو خاشقجی کے قتل کے شبے میں سعودی عرب میں زیر حراست اٹھارہ افراد کو ملک بدر کر کے ترکی کے حوالے کرنا ہو گا۔ تاہم ریاض حکومت نے ابھی تک ایسی کوئی حامی نہیں بھری۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ استنبول میں، جہاں خاشقجی کو قتل کیا گیا تھا، ریاستی دفتر استغاثہ کے ماہرین نے سعودی حکام کے نام ایک تحریری درخواست تیار کر لی ہے، جو عنقریب ہی سعودی حکام کے حوالے کر دی جائے گی۔
خاشقجی کے قتل کے سلسلے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر اور کئی دیگر اعلیٰ حکام نہ صرف یہ کہہ چکے ہیں کہ جمال خاشقجی کا قتل ایک ’بہت بڑی اور سنگین غلطی‘ تھی بلکہ ساتھ ہی اس قدامت پسند عرب بادشاہت کے اعلیٰ اہلکار یہ اعتراف بھی کر چکے ہیں کہ بظاہر خاشقجی کا قتل پہلے سے تیار کردہ ایک منصوبے کے تحت کیا گیا تھا۔
دو اکتوبر کو استنبول کے سعودی قونصل خانے میں سعودی کمانڈوز کی ایک ٹیم کے ہاتھوں خاشقجی کے قتل کے سلسلے میں کئی حلقوں کی طرف سے یہ الزام بھی لگایا گیا تھا، جس کی سعودی حکمران واضح تردید کر چکے ہیں، کہ اس قتل کا حکم مبینہ طور پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے دیا تھا۔
ترک حکام نے خاشقجی کے 18 مشتبہ قاتلوں کی ملک بدری کے بعد ان کے ترکی کے حوالے کیے جانے کا مطالبہ سعودی تفتیشی اہلکاروں کے اس بیان کے محض ایک روز بعد کیا کہ خاشقجی کے قتل کا منصوبہ پہلے سے تیار کردہ تھا۔
اسی دوران ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ انقرہ حکومت اور ترک تفتیشی حکام کے پاس اس قتل سے متعلق اسے مزید شواہد بھی ہیں، جو ابھی تک منظر عام پر نہیں لائے گئے۔
صدر ایردوآن نے انقرہ میں اپنے ایک خطاب میں کہا کہ خاشقجی کے قتل سے متعلق چھان بین میں مدد کے لیے سعودی دفتر استغاثہ کے ماہرین کی ایک ٹیم عنقریب ہی ترکی کا دورہ کرے گی۔ سعودی ماہرین کی اس ٹیم میں خلیج کی اس ریاست کے مستغیث اعلیٰ بھی شامل ہوں گے۔
م م / ع ح / اے ایف پی