1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرقی غوطہ، باغیوں کا آخری ٹھکانہ شدید بمباری کی زد میں

عاطف توقیر
7 اپریل 2018

سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق شام کی حکومتی فورسز نے دمشق کے نواح میں واقع مشرقی غوطہ میں باغیوں کے زیرقبضہ آخری مضبوط ٹھکانے پر بمباری میں شدت پیدا کر دی ہے جب کہ اب تک درجنوں افراد مارے جا چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2vdkM
Syrien Syrische Soldaten in Ost-Ghuta
تصویر: Imago/Xinhua/A. Safarjalani

شامی تنازعے پر نگاہ رکھنے والی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق مشرقی غوطہ میں دوما کا قصبہ جو اس علاقے میں باغیوں کا آخری مضبوط ٹھکانا ہے، سرکاری فورسز کی جانب سے شدید بمباری کی زد میں ہے۔ آبزرویٹری کے مطابق سرکاری فورسز فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ بھاری توپ خانے کا استعمال بھی کر رہی ہیں جب کہ زمینی فورسز بھی دوما میں باغیوں کے خلاف اس آپریشن میں پیش پیش ہیں۔

مشرقی غوطہ کے زیادہ تر حصے شامی فوج کے قبضے میں

ایک پاکستانی نے مشرقی غوطہ میں کیا دیکھا؟

اسد مخالف باغی غوطہ چھوڑنے پر تیار

آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں شامی اور روسی لڑاکا طیارے نے گزشتہ شب سے اب تک 30 فضائی حملے کیے ہیں جب کہ جنگی ہیلی کاپٹروں کی مدد سے بھی اس علاقے میں 25 بیرل بم گرائے گئے ہیں۔

دس روز تک قدرے امن کے بعد گزشتہ روز شامی فورسز نے دوما کے قصبے پر درجنوں فضائی حملے کیے تھے۔ اس علاقے پر باغیوں کے ایک مضبوط گروپ جیش الاسلام کا قبضہ ہے، تاہم مشرقی غوطہ کا پورا علاقہ ایک طویل مدت سے سرکاری فورسز کے محاصرے میں ہے۔

جمعے کے روز ہونے والی بمباری میں آٹھ بچوں سمیت کم از کم 40 عام شہریوں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں، ادھر شام کی زمینی فورسز بھی رفتہ رفتہ اس قصبے پر اپنی گرفت مضبوط کرتی جا رہی ہیں۔

جمعرات کو دوما سے عام شہریوں کے انخلا تک آپریشن معطل کیا گیا تھا، جب کہ اس سے قبل اس علاقے سے سینکڑوں اپوزیشن جنگجو اپنے اہل خانہ کے ہم راہ نکل گئے تھے۔ اس سلسلے میں روس کی ثالثی میں ڈیل طے پائی تھی۔

حالیہ کچھ ہفتوں میں حکومتی فورسز مشرقی غوطہ کا ایک بڑا حصہ اپنے قبضے میں لے چکی ہیں، جس کی ایک وجہ روس کی ثالثی میں جنگجوؤں کا علاقے سے پرامن اور محفوظ انخلا ہے جب کہ دوسری وجہ شام کی زمینی فورسز کی مسلسل پیش قدمی ہے۔

واضح رہے کہ مشرقی غوطہ ایک طویل عرصے سے باغیوں کے قبضے میں ہے مگر گزشتہ چار برسوں سے بشاالاسد کی حامی فورسز نے مشرقی غوطہ کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ مبصرین کے مطابق اگر مشرقی غوطہ کا تمام علاقہ سرکاری فورسز کے قبضے میں آ گیا، تو یہ دسمبر 2016ء میں حلب میں باغیوں کی پسپائی کے بعد ان کے لیے دوسرا سب سے بڑا دھچکا ہو گا۔