’مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہیں‘
13 دسمبر 2017ترکی کے شہر استنبول میں منعقدہ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے ایک غیرمعمولی ہنگامی اجلاس کے اختتام پر ایک 23 نکاتی مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔ ستاون مسلمان ممالک کی اس تنظیم کے اجلاس میں میزبان ترکی کے علاوہ پچاس ممالک کے مندوب شریک ہوئے۔ بائیس ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم نے بھی اس اجلاس میں شرکت کی۔ مشترکہ اعلامیہ کی اکثر شقوں میں فلسطینیوں کی ہر فورم پر مکمل حمایت جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’’اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے یروشلم کے معاملے کے حل کے لیے کوئی قدم نہ اٹھایا تو رکن ممالک اس معاملے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں لے کر جائیں گے‘‘۔
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے اس اجلاس کے دوران میزبانی کے فرائض سر انجام دیے۔ اپنے خطاب میں صدر ایردوآن نے امریکا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ انہوں نے اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ وہ ایک ’دہشت گرد ریاست‘ ہے جو نہتے فلسطینیوں اور خصوصاﹰ بچوں پر ظلم کرتی ہے۔ ترک صدر نے نقشے کی مدد سے اجلاس کے شرکاء کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ 1947ء سے قبل اسرائیل کا وجود مشرق وسطی کے نقشے پر ایک نقطے کی مانند تھا لیکن اب یہ بہت پھیل چکا ہے اور اسرائیلی قبضے کے سبب فلسطین اب نقشے پر ایک نقطے کی مانند رہ گیا ہے۔ انہوں نے اپنے اس موقف کا بھی اعادہ کیا کہ یروشلم مسلمانوں کے لیے ایک ’’ریڈ لائن‘‘ یا سرخ لکیر ہے۔
فلسطین کے صدر محمود عباس نے ترکی اور دیگر اسلامی ممالک کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسرائیل کی سخت مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے آج تک کسی بھی قرار داد کو نہیں مانا۔ محمود عباس کا کہنا تھا کہ یروشلم فلسطین کا تھا، ہے اور رہے گا۔ انہوں نے امریکی صدر ٹرمپ کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ امریکا امن بات چیت میں کسی قسم کا کردار ادا کرنے کے لیے نا اہل ہو گیا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا، ’’امن بات چیت میں اب امریکا کے مزید کسی کردار کو تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ اس نے اپنے تعصب کو ثابت کر دیا ہے۔‘‘
اجلا س کی خاص بات اس میں لاطینی امریکا کے ملک وینزویلا کے صدر نکولاس مادورو کی شرکت تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ امریکی فیصلے کے خلا ف فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عام طور پر او آئی سی اسلامی دنیا کو پیش آنے والے مسا ئل پر زیادہ فعال نظر نہیں آتی تاہم اس مرتبہ کم از کم ایک اہم معاملے پر رکن ممالک میں سے اکثر نے کھل کر اظہار خیال اور اس مسئلے کے حل پر اتفاق کیا ہے۔ تاہم یروشلم کے معاملے پر اس تنظیم کا اصل امتحان یہ ہو گا کہ وہ یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اپنے فیصلے پر دنیا کے مزید کتنے ممالک کی حمایت حاصل کر سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ اسلامی دنیا کے اہم ترین ملک سعودی عرب اور فلسطین کے پڑوسی اسلامی ملک مصر کے سربراہان نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ ان کی عدم حاضری کے سبب اس تنظیم میں شامل ممالک کے آپس میں تعلقات پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔
اجلا س میں شریک ایرانی صدر حسن روحانی کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کی مدد کے لیے ہر ممکن ذریعہ استعمال کیا جانا چاہیے۔