’مشرق وسطیٰ تنازعے کے دو ریاستی حل پر غور‘
30 جون 2010امریکی صدر کا کہنا ہے کہ سعودی فرماں رواں کے ساتھ ظہرانے پر کی گئی گفتگو کے دوران ایران، افغانستان، پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے امور پر گفت وشنید ہوئی۔ باراک اوباما کے بقول ایسی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے جرآت مندانہ اقدامات کی اہمیت اجاگر کی گئی جس کے برابر میں محفوظ اور خوشحال اسرائیلی ریاست ہو۔
ملاقات کے بعد وائٹ ہاؤس میں شاہ عبد اللہ اور صدر اوباما نے اس امید کا اظہار کیا کہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے مابین براہ راست مذاکرات جلد بحال ہوجائیں گے۔
واضح رہے کہ عرب ممالک اس تنازعے کے ضمن میں اوباما انتظامیہ کے کردار سے خاصے مایوس ہیں۔ سعودی شاہ کے اس دورے کے بعد چھ جولائی کو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو بھی امریکی صدر سے ملاقات کے لئے وائٹ ہاؤس پہنچ رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق شاہ عبد اللہ نے صدر اوباما سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم پر متنازعہ یہودی آباد کاری روکنے اور امن مذاکرات کی بحالی کے لئے دباؤ بڑھائیں۔ شاہ عبد اللہ 2002ء میں تجویز کرچکے ہیں کہ اگر اسرائیل مقبوضہ عرب علاقے چھوڑ دے تو اسے تسلیم کیا جاسکتا ہے۔
ادھر اسرائیلی وزیر خارجہ ایویگڈور لیبر مان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات میں رکاوٹیں اور فلسطینی گروپوں کے باہمی اختلافات کے باعث ایسا لگتا ہےکہ کم از کم 2012ء تک فلسطینی ریاست وجود میں نہیں آسکتی۔ مشر ق وسطیٰ تنازعے کے حل کے لئے سرگرم امریکہ، یورپی یونین، اقوام متحدہ اور روس کی کوشش ہے کہ سن 2012ء تک ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔
رواں ماہ ہی امریکی صدر نے فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس سے ملاقات کے بعد امکان ظاہر کیا تھا کہ اسی سال مشرق وسطیٰ کے معاملے میں پیشرفت ممکن ہے۔ تاہم مبصرین کے مطابق امریکہ ابھی تک تنازعے کے فریقین کو اپنے اپنے مؤقف میں لچک پر آمادہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔
صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد باراک اوباما کی شاہ عبد اللہ سے یہ تیسری ملاقات ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق حالیہ ملاقات میں ایران پر لگی پابندیوں کی حمایت کی گئی، خوشحال یمن کی ضرورت اجاگر کی گئی جبکہ عراقی حکومت سازی کے امور پر بھی بات کی گئی۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عاطف بلوچ