مشرق وسطی امن مذاکرات کا نیا دور
2 ستمبر 2010اسرائیل کی جانب سے تعمیراتی منصوبوں پر عارضی طور پر دس ماہ کی پابندی عائد کی گئی تھی۔ یہ مدت اسی ماہ اختتام پذیر ہونے جا رہی ہے۔ فلسطینیوں کی جانب سے یہودی بستیوں کی تعمیر کے منصوبے کو مکمل طور پر روکنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں ان مذاکرات کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟
مشرق وسطٰی کے لئے خصوصی امریکی مندوب جارج مچل نے گزشتہ مہینوں کے دوران خطے کے کئی دورے کئے۔ اس دوران انہوں نے بار بار اسرائیلی اور فلسطینی حکام سے ملاقاتیں بھی کیں لیکن یہ تمام کوششیں بے سود ہی ثابت ہوئیں۔ وہ فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے میں ناکام رہے۔تاہم 20 اگست کو امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’’میں نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس کو دوستمبر کو واشنگٹن آنے کی دعوت دی ہے تا کہ وہ براہ راست مشرق وسطٰی امن بات چیت کو آگے بڑھائیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ایک سال کے اندر اندر اس تنازعے کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔‘‘
ہلیری کلنٹن کے بقول انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ اس دوران کن مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس سے قبل سابق امریکی صدر جارج بش نے بھی مشرق وسطٰی تنازعے کوحل کرنے کے حوالے سے ایک ہدف مقررکیا تھا تاہم منزل حاصل نہیں ہو سکی تھی۔2007ء میں اناپولس میں ہونے والی بات چیت کے بعد اُس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے براہ راست بات چیت شروع کرنے کا عندیہ تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ باہمی مذاکرات کا یہ سلسلہ بغیر کسی وقفے کے براہ راست ہوگا اور 2008 ء کے دوران ہی اس کا نتیجہ سامنے آ جا ئے گا۔
تاہم اس کے بعد فریقین اپنے اختلافات دور نہ کر سکے اور09 2008ء کی غزہ جنگ نے سب کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ بعد میں ایہود اولمرٹ اسرائیل کے وزیراعظم نہ رہے۔ بینجمن نیتن یاہو نے وزارت عظمٰی کا منصب سنبھالنے کے بعد امن کی بات توکی لیکن عملی طور پر وہ اس کے لئے کوششیں کرتے دکھائی نہیں دئے۔ وہ یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے پر رضامند دکھائی نہیں دے رہے اور جب تک وہ ایسا نہیں کرتے، محمود عباس بات چیت آگے نہیں بڑھانا چاہتے۔ نیتن یاہو یہ کہہ چکے ہیں کہ تعمیراتی منصوبوں کو روکنے کا مطلب علاقے اور زمین سے دستبردار ہونا نہیں ہے۔ ان کے بقول ’’ہم یہاں ہیں اور ہم یہیں رہیں گے، ہم یہاں کاشتکاری کرتے ہیں، ہمارے گھر یہاں پر ہیں اور یہ علاقے ہمیشہ اسرائیل کا ہی حصہ رہیں گے۔‘‘
اگرچہ مشرقی یروشلم کا مسئلہ اور اسرائیلی ریاست کو تسیلم کرنے کا معاملہ بھی انتہائی اہم ہیں تاہم یہودی بستیوں کی تعمیر کا مسئلہ ہی مذاکرات کا تعطل توڑنے کی راہ میں حائل رہا۔ بہر حال بہت سے مسائل میں گھرے ہوئے مشرق وسطٰی مذاکرات سے امریکیوں نے بھی بہت زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کر رکھی ہیں۔ اسی لئے انہوں نے مصری صدر حسنی مبارک، اردن کے شاہ عبداللہ اور مشرق وسطٰی کے خصوصی مندوب ٹونی بلئیر کو بھی مذاکرات میں شریک کیا ہے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: امجد علی