مشکل حالات، لاکھوں پاکستانی گھریلو سامان بیچنے پر مجبور
14 جولائی 2020ٹیکسوں سے ہونے والی آمدنی میں ریکارڈ کمی کے بعد ملکی خسارہ پورا کرنے کے لیے ریکارڈ حد تک نئے قرضے لیے گيے اور خزانہ خالی ہونے کے باعث تین ملین ملازمین کی تنخواہوں میں کمر توڑ مہنگائی سے نمٹنے کے لیے کوئی اضافی رقوم دستیاب نہیں ہیں۔
لیکن کورونا وائرس کی وبا کا پاکستان پر کیا اثر پڑا ؟ پہلے ہی سے خراب سماجی اشاریے یا سوشل انڈیکس اب کس حال میں ہیں؟ اس بارے میں حیران کن طور پر پاکستانی میڈیا میں زیادہ خبریں یا تجزیے نظر نہیں آتے۔
تاہم چند دن پہلے گیلپ پاکستان کے ایک قومی سروے سے اس معاشرتی پہلو سے متعلق ایسے اعداد و شمار سامنے آئے، جن سے واضح ہو گیا کہ کورونا وائرس کی وبا کے پاکستانی معاشرے پر کس طرح کے ہوش ربا اور تکلیف دہ اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
اس سروے میں ملک بھر سے شماریاتی طور پر منتخب کردہ خواتین و حضرات سے یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ کیا آپ نے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اپنی بنیادی نوعیت کی مالی اور گھریلو ضروریات پورا کرنے کے لیے اپنے ہی گھر کی کوئی شے یا اشیاء فروخت کیں؟ اس سوال کا سات فیصد رائے دہندگان نے جواب ہاں میں دیا جبکہ ترانوے فیصد کا جواب نفی میں تھا۔ لیکن اگر اس شرح کے مطابق متاثرہ گھرانوں کی تعداد دیکھی جائے، تو ‘ہاں' میں جواب دینے والے محض سات فیصد گھرانوں کو درپیش حالات کا انتہائی درد ناک ہونا بھی ثابت ہو جاتا ہے۔
سروے آف پاکستان کے مطابق ملک میں کل گھرانوں کی تعداد تین کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ سات فیصد گھرانوں کا مطلب ہوا، تقریباﹰ اکیس لاکھ گھرانے۔ یعنی پاکستان میں تقریباﹰ دو اعشاریہ ایک ملین گھرانوں میں فاقہ کشی ان گھروں کی دہلیز تک پہنچ چکی ہے۔ ان گھرانوں کی کل آمدنی ان کے لازمی کل اخراجات سے بھی کم پڑ گئی، تو اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ان گھرانوں کو پہلے ہی مشکل سے حاصل کردہ اہم گھریلو اشیاء یا الیکٹرانک سامان، مثلاﹰ موٹر سائیکلیں، ٹی وی، فریج اور فرنیچر وغیرہ بیچنا پڑ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
وبا کی وجہ سے کتنے لوگ خط غربت سے نيچے چلے جائيں گے؟
انسانی پہلو سے اس سروے کے نتائجکی خوفناکی اپنی وضاحت خود کر دینے کے لیے کافی ہے۔ دوسری طرف گیلپ پاکستان کے اسی روز کیے گئے ایک دوسرے سروے کے نتائج نے بھی ایک اور غم ناک حقیقت سے پردہ اٹھا دیا۔ اس سروے میں پوچھا گیا تھا، ''آپ کے خیال میں آپ کی صحت کے متعلق فیصلوں کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ حکومت پر یا خود آپ پر؟‘‘ اس سوال کے جواب میں تقریباﹰ تین چوتھائی (73 فیصد) پاکستانیوں کا کہنا تھا کہ ان کی ذاتی صحت سے متعلق فیصلوں کی ذمہ داری خود ان پر ہی عائد ہوتی ہے۔ مگر تقریباﹰ ایک چوتھائی رائے دہندگان (24 فیصد) کا کہنا تھا کہ ان کی صحت سے متعلق فیصلوں کی ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
اگر ان دونوں عوامی جائزوں کے نتائج کو ملا کر دیکھا جائے، تو سچ یہ سامنے آتا ہے کہ حکومت کے عوام کو کورونا کی وبا کے اثرات سے بچانے کے لیے کیے گئے جملہ امدادی اقدامات نہ صرف قطعی ناکافی ہیں بلکہ ہر چار میں سے تین پاکستانیوں کا عوامی صحت کے حوالے سے ریاست پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں سے اعتبار بھی اٹھ چکا ہے۔
پاکستان کے دو ملین سے زائد گھرانوں کے گھروں کی دہلیز پر فاقہ کشی منہ کھولے کھڑی ہو اور حکمرانوں کو اس پر عائد ہونے والی اجتماعی ذمہ داریوں سے بھی بری الذمہ سمجھے، تو اس کے کئی معانی میں سے واضح ترین مطلب یہ ہے: ان لاکھوں گھرانوں اور ان کے کئی ملین ارکان کے لیے ریاست کا وجود بے معنی ہوتا جا رہا ہے اور عوام کے پاس ‘اپنی مدد آپ' کے علاوہ باقی تمام راستے بند ہوتے ہوتے جا رہے ہیں۔
کسی معاشرے میں عام شہریوں کی اتنی زیادہ تعداد کا زندہ رہنے کے لیے اپنا گھریلو سامان بیچنے پر مجبور ہو جانا اور ریاست کے بجائے خود پر انحصار کرنا اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ جس ریاست کے شہری ہیں، عملی طور پر وہ ریاست سکڑ کر ان میں سے ہر ایک کے گھر کی چار دیواری کے اندر تک محدود ہو گئی ہے۔ انفرادی سطح پر یہ کئی ملین پاکستانی اپنے اپنے گھروں کے اندر اپنی اپنی مائیکروسٹیٹ میں فاقوں سے بچنے اور زندہ رہنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
پاکستان آبادی کے لحاظ سے اب دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ افرادی قوت اس ملک کا بہت بڑا سرمایہ ہو سکتی ہے۔ لیکن عوام، وہ تو اکیلے ہیں۔ اپنی اپنی چھت کے نیچے اپنی اپنی بقا کی جنگ میں مصروف۔ ایسا ہونا نہیں چاہیے تھا۔ لیکن ایسا ہو رہا ہے، دنیا کی چند گنی چنی ایٹمی طاقتوں میں سے ایک میں۔