معمر قذافی کے خلاف عالمی برداری کی طرف سے فوجی کارروائی شروع
19 مارچ 2011فرانسیسی فوجی حکام نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ ان کی فضائیہ نے بن غازی شہر میں معمر قذافی کے حامی فوجیوں کے کئی ٹینکوں اور فوجی گاڑیوں کو ہدف بنایا، جس کے نتیجے میں وہ تباہ ہو گئے۔ تاہم انہوں نے یہ تصدیق نہیں کی کہ اس حملے میں کتنے ٹینکوں اور فوجی گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا۔
دوسری طرف ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق بن غازی میں عالمی فوجی ایکشن کے تحت چارحکومتی ٹینک تباہ کر دیے گئے۔
اس سے قبل پیرس میں امریکہ، یورپ اور عرب دنیا کے سرکردہ رہنماؤں کے ایک ہنگامی اجلاس کے بعد فیصلہ کیا گیا تھا کہ لیبیا میں عام شہریوں کی ہلاکت روکنے کے لیے فوری طورپر فوجی ایکشن ناگزیر ہو چکا ہے۔
فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی نے پیرس میں ہونے والے اس ہنگامی اجلاس کے بعد اعلان کیا کہ فرانس لیبیا کے خلاف پہلے ہی فوجی ایکشن لے چکا ہے اور اس کے جنگی طیارے لیبیا میں نوفلائی زون کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے تیار ہیں۔
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اس فیصلے کے تناظر میں کہا کہ معمر قذافی نے جنگ بندی سے متعلق اقوام متحدہ کی قرارداد کی خلاف ورزی کی ہے، لہذا وہاں مزید سویلین ہلاکتوں کو روکنے کے لیے اب قذافی کو فوری ایکشن کا سامنا کرنا ہوگا۔ کیمرون نے برطانوی ٹیلی وژن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’’ اس کے ذمہ دارکرنل قذافی ہیں۔ انہوں نے عالمی برادری سے جھوٹ بولا۔ انہوں نے جنگ بندی کا وعدہ کیا تھا مگر انہوں نے اس کی خلاف ورزی کی۔ قذافی نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف وحشیانہ کارروائی کی، لہذا اب ان کے خلاف ایکشن کا وقت آگیا ہے۔ اس کی فوری ضرورت ہے۔ ہمیں اقوام متحدہ کی فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنانا ہے۔ ہم عام شہریوں کی قربانی کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘‘
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ عالمی طاقتیں س بات پر متحد ہیں کہ لیبیا میں جاری تشدد کو روکا جائے۔ تاہم انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان کا ملک فوجی ایکشن میں حصہ نہیں لے گا۔ انہوں نے یہ بیان پیرس میں ہونے والے ہنگامی اجلاس کے بعد دیا۔
برلن کی طرف سے جمعرات کے روز سکیورٹی کونسل میں لیبیا کے خلاف نوفلائی زون کے حوالے سے منظور کی جانے والی قرار داد میں حصہ نہ لینے کے علاوہ اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ جرمنی کسی فوجی کارروائی میں حصہ نہیں لے گا۔ تاہم جرمن چانسلر کی طرف سے یہ پیشکش کی گئی ہے کہ جرمنی کے فضائی نگرانی سے متعلق ٹروپس افغانستان میں اس کام کی ذمہ داری سنبھال سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں افغانستان میں تعینات امریکی عملہ وہاں سے فارغ ہوکر لیبیا کے خلاف کارروائی میں حصہ لے سکتا ہے۔
پیرس میں ہونے والی اس خصوصی سمٹ میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کے علاوہ فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی، جرمن چانسلر انگیلا میرکل، برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے بھی شرکت کی۔
رپورٹ: افسراعوان
ادارت: عاطف بلوچ