مفرور جابر البقر مہاجر کی حیثیت سے جرمنی آیا
9 اکتوبر 2016خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے نو اکتوبر بروز اتوار ایک جرمن تحقیقاتی ٹیم کے ایک ترجمان کے حوالے سے تصدیق کر دی ہے کہ پولیس جس شامی شہری جابر البقر کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہے، وہ دراصل گزشتہ برس ہی بطور مہاجر جرمنی آیا تھا۔ اس پر الزام ہے کہ وہ جرمنی میں دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔
جرمنی میں دہشت گردانہ حملے کے شبے میں پولیس کی بڑی کارروائی
برلن: مہاجریں کے ایک مرکز میں پولیس کی فائرنگ، ایک شخص ہلاک
شامی فائربندی کی ڈیل عام نہ کرنے پر روسی بے چینی
ہفتے کی علی الصبح پولیس نے سیکسنی کے شہر کیمنٹس میں اس شامی مہاجر کے گھر پر چھاپہ مارتے ہوئے دھماکا خیز مواد برآمد کر لیا تھا تاہم ملزم اس چھاپہ مار کارروائی سے قبل ہی فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
اتوار کے دن پولیس نے بتایا ہے کہ جابر البقر کے فلیٹ میں اس کے ساتھ رہنے والے ایک اور شامی شہری کو حراست میں لیا گیا تھا، جس سے پوچھ گچھ کا سلسلہ جاری ہے۔ عدالت نے اس شخص کو پولیس کی حراست میں رکھنے کی اجازت دی ہے۔ اس پر شبہ ہے کہ یہ بھی جابر البقر کا ساتھی ہے۔
پولیس کے مطابق ملک بھر میں ریلوے اسٹیشنز، ہوائی اڈوں اور دیگر اہم مقامات پر سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ خطرہ ہے کہ مفرور جابر البقر کے پاس دھماکا خیز مواد یا اسلحہ ہو سکتا ہے۔ محکمہٴ پولیس کی ایک ٹوئٹ کے مطابق، ’’مفرور کی تلاش جاری ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ کہاں ہے اور اس کے پاس کیا کچھ ہے۔ شہری محتاط رہیں۔‘‘
خبر رساں ادارے اے یف پی نے پولیس ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ جب کمانڈوز نے مشرقی شہر کیمنٹس میں جابر البقر کی گرفتاری کے لیے اس کے گھر چھاپہ مار کارروائی کی تو یہ شامی مہاجر بال بال بچ گیا۔ پولیس نے جب دیکھا کہ اس اپارٹمنٹ سے کوئی شخص نکل کر جا رہا ہے تو اسے روکنے کی خاطر کمانڈوز نے انتباہی طور پر فائرنگ بھی کی لیکن وہ وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
جرمن روزنامے ڈیر اشپیگل نے کسی ملزم کے اس طرح فرار ہو جانے کو سکیورٹی فورسز کی ’ممکنہ نا اہلی‘ سے بھی تعبیر کیا ہے۔ تاہم سکیورٹی فورسز نے اس کے فلیٹ سے تین مشتبہ افراد کو حراست میں لیا تھا، جن میں سے دو کو چھوڑ دیا گیا جبکہ ایک کو بدستور حراست میں رکھا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ شامی شہری پولیس سے مکمل تعاون کر رہا ہے۔
پولیس کے مطابق ابھی تک یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ جابر البقر کا کسی گروہ سے کوئی تعلق ہے تاہم تحقیقات میں اس بات کا خیال رکھا جا رہا ہے۔ ان امکانات پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ جابر کے انتہا پسند گروہ داعش سے روابط ہو سکتے ہیں۔
ڈیئر اشپیگل کی ایک رپورٹ کے مطابق جابر البقر اٹھارہ فروری سن دو ہزار پندرہ کو جرمنی داخل ہوا تھا، جس کے دو ہفتے بعد ہی اس نے پناہ کی درخواست جمع کرا دی تھی، جو سن دو ہزار سولہ میں جون کے مہینے میں منظور بھی کر لی گئی تھی۔ پولیس کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ جابر البقر دھماکا خیز مواد بنانے کے لیے آن لائن معلومات حاصل کر رہا تھا جبکہ اس نے حال ہی میں بم بنانے کی خاطر مواد بھی خریدا تھا۔