ملائیشیا میں اپوزیشن سخت ’اسلامی قوانین‘ کے لیے سرگرداں
18 مارچ 2015ملائیشیا کی اسلام پسند اپوزیشن جماعت کا مطالبہ ہے کہ ملکی میں ’سخت شرعی قوانین‘ بشمول سنگ ساری اور ہاتھ یا سر قلم کرنے جیسی سزائیں نافذ کی جائیں۔
پارٹی اسلام سی ملائیشیا یا پی اے ایس کی جانب سے ملک میں ’حدود کے قوانین‘ نافذ کرنے کے مطالبے کے ساتھ یہ خبردار کیا گیا ہے کہ وہ اپوزیشن اتحاد سے نکل سکتی ہے۔ ملائشیا میں ایک طویل عرصے سے مسلم پارٹی اپنے اتحادیوں کے ساتھ حکمران ہے اور اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد اسی حکمران اتحاد کے خلاف قائم ہے۔
تین جماعتی اپوزیشن اتحاد میں پی اے سی سن 2013ء کے انتخابات کے بعد سب سے زیادہ مقبول جماعت رہی تھی جب کہ حکمران یونائیٹڈ الائس نیشنل آرگنائزیشن یو ایم این او اور اس کی حامی جماعتوں نے زیادہ نشستیں حاصل کر کے سن 1957ء میں ملک کی آزادی سے اب تک ملائیشیا پر حکمرانی کی روایت برقرار رکھی۔
فروری میں اپوزیشن لیڈر انور ابراہیم کو ہم جنس پرستی کے الزامات کے تحت پانچ برس قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔
ایسے موقع پر جب انور ابراہیم کو سزا ہو جانے کی وجہ سے اپوزیشن اتحاد کی عوامی مقبولیت کو زک پہنچی، اسلام پسندوں کی جانب سے کیلانٹان ریاست میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے مطالبات کر دیے گیے۔ اس ریاست میں اپوزیشن اتحاد حکومت قائم کیے ہوئے ہے۔ تاہم اپوزیشن اتحاد اسلام پسندوں کے ان مطالبات کو اب تک ماننے سے گریزاں ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ ملائیشیا میں متعدد ریاستوں میں حدود کے قوانین نافذ ہیں، تاہم وہ وفاقی قانون کے زیرسایہ نافذ العمل ہیں۔
اسلام پسند جماعت پی اے ایس کے رہنما اور کیلانٹن ریاست کے نائب وزیراعلیٰ نک عمر عبداللہ نے روئٹرز سے بات چیت میں کہا، ’’حدود ہمارے مذہب کا حصہ ہے۔ بطور مسلمان جب ہمیں حکومت قائم کرنے کا مینڈیٹ دیا گیا تو یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان قوانین کا نفاذ عمل میں لائیں۔‘‘
بدھ کے روز ریاستی پارلیمان میں پی اے ایس نے ریاستی قوانین میں ترامیم کا مسودہ پیش کر دیا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس مسودے میں لوگوں کا سرقلم کرنے جیسی سزائیں رکھی گئی ہیں۔ اس مسودے میں اسلام چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب قبول کرنے والے شخص کے لیے بھی موت کی سزا تجویز کی گئی ہے۔