1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
جرائمملائیشیا

ملائیشیا، ویلفیئر ہومز میں بچوں کا مبینہ جنسی استحصال

13 ستمبر 2024

پولیس نے بیس فلاحی سینٹرز پر چھاپوں کے دوران 402 بچوں کو بازیاب اور 171 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ یہ سینٹرز گلوبل اخوان نامی گروپ کے تحت چلائے جا رہے تھے۔

https://p.dw.com/p/4kbgP
ملائیشیا میں ایک پولیس کارروائی کے دوران بیس ایسے فلاحی مراکز یا ویلفیئر ہومز پر چھاپے مارے گئے ہیں، جہاں مبینہ طور پر سینکڑوں بچوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔
ملائیشیا میں ایک پولیس کارروائی کے دوران بیس ایسے فلاحی مراکز یا ویلفیئر ہومز پر چھاپے مارے گئے ہیں، جہاں مبینہ طور پر سینکڑوں بچوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ تصویر: colourbox/MAXPP

ملائیشیا میں ایک پولیس کارروائی کے دوران بیس ایسے فلاحی مراکز یا ویلفیئر ہومز پر چھاپے مارے گئے ہیں، جہاں مبینہ طور پر سینکڑوں بچوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔

حکام کے مطابق بدھ کے روز کی جانے والی اس کارروائی کے دوران 402 بچوں کو بازیاب جبکہ ان اداروں کے نگران اور اساتذہ سمیت 171 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔

یہ ویلفیئر ہومز گلوبل اخوان سروسز اینڈ بزنس ہولڈنگز نامی ایک گروپ چلا رہا تھا، جس کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد اسلامی طرز زندگی کو فروغ دینا ہے۔ اس بزنس گروپ کے بانی اشعری محمد تھے، جو اسلامی فرقے الارقم کی قیادت بھی کرتے رہے تھے۔ تاہم 1994ء میں ملائیشیا کی حکومت نے اس فرقے پر پابندی عائد کر دی تھی۔

ملائیشیا میں پولیس کے سربراہ رضا الدین اسماعیل نے کہا ہے کہ گلوبل اخوان کے تحت چلائے جانے والے ویلفیئر ہومز میں سے بازیاب کیے گئے بچوں میں سے کچھ کے ساتھ ممکنہ طور پر ان کے سر پرستوں نے جنسی زیادتی بھی کی اور ان بچوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جنسی استحصال کی تربیت بھی دی گئی۔ اسماعیل نے بتایا کہ ان بچوں کی عمریں ایک سے سترہ برس کے درمیان ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نافرمانی کی صورت میں سزا کے طور پر بچوں کو دھات کے بنے گرم چمچوں سے جلایا جاتا اور انہیں طبی سہولیات بھی فراہم نہ کی جاتیں۔

پولیس کے مطابق ویلفیئر ہومز میں موجود بچوں کے والدین گلوبل اخوان کے ملازمین ہیں۔

ملائیشیا میں گلوبل اخوان کا ہیڈکوارٹر
ملائیشیا میں گلوبل اخوان کا ہیڈکوارٹرتصویر: MOHD RASFAN/AFP

بقول پولیس ان بچوں کو پیدائش سے ہی ان سینٹرز میں رکھا گیا اور مبینہ طور پر بچپن سے ہی انہیں اس گروپ کے ساتھ وفادار رہنا سکھایا گیا۔ پولیس کا ماننا ہے کہ ان بچوں سے چندہ بھی اکھٹا کرایا جاتا تھا۔

اس کیس کی تحقیقات جنسی استحصال، بچوں کی طرف غفلت اور انسانوں کی اسمگلنگ کے الزامات کی تحت کی جا رہی ہیں۔

رضا الدین اسماعیل کے مطابق ان بچوں کو ویلفیئر ہومز میں ہی پڑھایا جاتا تھا اور تعلیم کے حصول کے لیے ان کا اسکولوں میں داخلہ نہیں کرایا گیا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ بچوں نے اپنے والدین کو سالوں سے نہیں دیکھا تھا کیونکہ انہیں کمپنی کی جانب سے بیرون ملک بھیج دیا گیا تھا۔

پولیس اب اس بات کی تحقیق بھی کر رہی ہے کہ آیا ان بچوں کو ان کے والدین سے جبراً الگ کیا گیا۔

اس معاملے کے سامنے آنے کے بات گلوبل اخوان کے ایک ترجمان مختار تاج الدین نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ یہ ویلفیئر ہومز براہ راست ان کی کمپنی نہیں چلا رہی تھی۔

گلوبل اخوان نے ایک بیان میں جنسی استحصال کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہیں کچھ حلقوں کی جانب سے اس کی کاروباری ساکھ خراب کرنے کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔

دوسری جانب ملائیشیا میں ایکٹیوسٹس نے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں بچوں کے تمام مراکز کو ریگولیٹ کیا جائے اور ان کی نگرانی کی جائے۔ انہوں نے محکمہ بہبود کی جانب سے مذہبی اداروں پر قوانین کے نفاذ کے حوالے سے سختی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

ملائیشیا میں 38 سماجی کارکنوں، ایکٹیوسٹس اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے، "خوفناک جنسی اور جسمانی استحصال کی اطلاعات ایک بڑی 'ویک اپ کال' ہیں۔ اب یہ اہم ہے کہ ہم اپنے تحفظ اطفال کی سروسز کے معیار اور دائرہ کار کا دوبارہ جائزہ لیں۔"

م ا / ع ب (اے پی)