ملانیا ٹرمپ کی تقریر کو کیوں سراہا جا رہا ہے؟
26 اگست 2020ناقدین کے بقول ملانیا ٹرمپ کا خطاب ان کے شوہر کے آئے دن کے سخت اور جارحانہ بیانات کے برعکس تھا اور اس میں مصیبت زدہ امریکیوں کے لیے دلی ہمدردی چھلک رہی تھی۔
منگل کو وائٹ ہاؤس سے اپنے خطاب میں امریکی خاتون اول نے کورونا وبا کی تباہی پر کھل کر اظہار خیال کیا۔
انہوں نے دلی طور پر کورونا سے متاثرہ امریکی خاندانوں سے اظہار افسوس اور ہمدردی کیا اور ملک میں جاری نسلی کشیدگی اور ہنگاموں پر قابو پانے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ امریکیوں کو نسلی کشیدگی بڑھانے کی بجائے اپنی تاریخ پر سچے دل کے ساتھ سوچنا چاہیے۔
وہ منگل کو وائٹ ہاؤس کے 'روز گارڈن‘ میں اپنے خاوند سمیت ایک چھوٹے سے مجمع سے خطاب کر رہی تھیں۔ یہ تقریب اس ہفتے جاری ریپبلکن پارٹی کے نیشنل کنوینشن کا حصہ تھی، جو اب صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم میں بدل چکا ہے۔
عوامی مقبولیت کے لحاظ سے رائے عامہ کے جائزوں میں صدر ٹرمپ اپنے ڈیموکریٹک حریف جو بائیڈن سے پیچھے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کورونا کے نقصانات اور ملک کی مختلف ریاستوں میں جاری نسلی ہنگامہ آرائی پر قابو پانے میں بظاہر ناکامی سے خاصی متاثر ہوئی ہے۔
خیال ہے کہ اس بار سیاہ فام اور خواتین ووٹروں کی خاصی تعداد ان سے ناراض ہے، جن کی حمایت حاصل کرنے میں ملانیا ٹرمپ مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں۔
صدر ٹرمپ کے چار سالہ دور صدارت کے دوران امریکی خاتون اول نسبتا کم سرگرم رہی ہیں اور میڈیا میں بات کرنے سے گریز کرتی رہی ہیں۔
اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ''آپ سب کی طرح میں نے بھی ہماری ملک میں جاری نسلی بے چینی پر سوچا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمیں اپنی تاریخ کے بعض حصوں پر کوئی فخر نہیں۔ لیکن میں چاہوں گی کہ آپ ماضی سے سیکھیں اور مستقبل پر نظر رکھیں۔‘‘
ملانیا ٹرمپ کا تعلق سلووینیا سے ہے۔ ان کے بچپن میں ان کا ملک یوگوسلاویا کا حصہ تھا، جو نوے کی دہائی میں خانہ جنگی کا شکار ہوگیا۔ اسی دوران ملانیا امریکا منتقل ہوگئیں جہاں انہوں نے ماڈلنگ میں نام کمایا اور بعد میں ڈونلڈ ٹرمپ سے شادی کی۔
اپنے خطاب میں ملانیا ٹرمپ نے صدر ٹرمپ اور دیگر ریپبلکن رہنماؤں کی طرح سیاسی مخالفین پر تنقید کرنے کی بجائے لوگوں کو متحد ہونے کی ترغیب دی۔
لیکن ساتھ ہی انہوں نے امریکیوں کو اپنے شوہر کے کردار کے بارے میں قائل کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ ''بطور صدر وہ ہر دم آپ اور آپ کے خاندان کے لیے لڑتے رہیں گے۔ وہ ہار نہیں مانتے۔‘‘
تاہم مبصرین کے مطابق یہ کہنا مشکل ہے کہ ان کی اس ایک تقریر کا ان لوگوں پر کوئی اثر ہوگا یا نہیں، جو اب صدر ٹرمپ کو امریکا کے لیے ایک غیرموزوں اور ناقابل اعتبار شخصیت کے طور پر دیکھتے ہیں۔