ملا برادر کے ساتھ ملاقات کروائی جائے گی، نواز شریف
30 نومبر 2013ہفتے کے روز دورہ کابل کے موقع پر افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان مظبوط تاریخی اور برادرانہ تعلقات قائم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا افغانستان کے امن و ترقی کے سفر میں وسیع ترمفاد ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نے یقین دہانی کرائی کہ ان کا ملک ترقی اور امن کے اس سفر میں کامیابی کے لٰیے افغان عوام کی مدد کرے گا۔
رواں برس جون میں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کابل کا پہلا دورہ کرنے والے نواز شریف نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ امن، ترقی اور خوشحالی کے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے صدر کرزئی کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔
دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کا ذکر کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ علاقائی تناظر میں تجارت، توانائی اور قریبی روابط ہمارے اقتصادی ایجنڈے کے لازمی جزو ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بات چیت میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان توانائی اور مواصلات کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے وسیع مواقع موجود ہیں۔
امریکہ اور افغانستان کے درمیان سلامتی کے معاہدے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں نواز شریف نے کہا کہ افغانستان ایک خود مختار ملک ہے اور یہاں پر امریکی اڈوں کی موجودگی یا کوئی بھی فیصلہ افغان حکومت اور عوام نے کرنا ہے۔
انہوں نے کہا، ’’افغانستان میں ہمارا کوئی حمایت یافتہ دھڑا نہیں۔ ہمارے حمایت یافتہ بے شک افغان عوام اور افغانستان ہے جن کے ساتھ ہمارے صدیوں پرانے برادرانہ تعلقات ہیں۔‘‘
نواز شریف کا کہنا تھا کہ افغانستان میں پائیدار امن کے لیے سیاسی حل ناگزیر ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں موجود طالبان راہنما ملا برادر کی ان لوگوں سے ملاقات کو یقنی بنایا جائے گا جنہیں اس کی اجازت افغان صدر دیں گے۔
دوسری جانب افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ ملاقات میں افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ کہ دہشت گردی دونوں ممالک کی مشترکہ دشمن اور خطے کے لیے بھی خطرناک ہے۔ افغان صدر نے کہا کہ نواز شریف کے دورۂ کابل سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔
افغان امور کے تجزیہ کار سلیم صافی کا کہنا ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلاء سے قبل وزیراعظم نواز شریف کے دورہ کابل میں دونوں ممالک کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوجی انخلاء کے بعد دونوں ممالک کے لیے صورتحال یکسر مختلف ہوگی۔
سلیم صافی نے کہا، ’’پاکستان انٹرا افغان ڈائیلاگ کے لیے معاونت کر سکتا ہے ۔اسی طرح افغان حکومت پاکستان کے مستقبل کے خدشات کو دور کر سکتی ہے۔ میرے خیال میں بنیادی اختلاف بھی یہی ہے اور جو مذکرات ہو رہے ہیں وہ بھی اسی مسئلے پر ہوں گے البتہ اس میں اقتصادی محاذ پر بھی پیش رفت کی توقع ہے۔‘‘
دریں اثنا ء پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے کابل میں افغان امن کونسل کے وفد سے بھی ملاقات کی۔ بعد ازاں وزیر اعظم اپنا ایک روزہ دورہ کابل مکمل کر کے پاکستان واپس پہنچ گئے ہیں۔