ویسے تو پاکستان نے پچھلے ستر برس میں تیسویں بار آئی ایم ایف کا سہارا لیا ہے۔ مگر اس بار جاری پروگرام کی نویں قسط حاصل کرنے کے لیے پچھلے آٹھ ماہ میں جتنے پاپڑ بیلے گئے، ڈنڈ بیٹھکیں نکالی گئیں، کان پکڑے گئے، قسمیں کھائی گئیں، تڑیاں لگا کے فوراً ناک سے لکیریں نکالی گئیں۔ ایسا کشٹ پہلے کبھی اٹھانا نہ پڑا۔
اس سے آدھی کوششوں میں تو محبوب آپ کے قدموں میں گر جاتا ہے۔ اس سے چوتھائی خوشامد میں تو پتھر پگھل کے موم ہو جاتا ہے۔ اتنی بھاگ دوڑ کسی بنجر کھیت میں کی جائے تو سبز بالیاں نکل آتی ہیں، اتنی بار ایڑیاں گھسنے سے تو زمین سے چشمہ پھوٹ پڑتا ہے۔ مگر آئی ایم ایف نے عین آخری چند گھنٹوں تک قرض کے انگور معلق رکھے اور جب دیکھا کہ اب غشی طاری ہونے لگی ہے تو گچھے میں سے چند انگور اقتصادی حلق تر کرنے کے لیے تھما دیے گئے۔
یہ اتنا بڑا امتحان تھا کہ اس کے نتیجے کا اعلان کرنے کے لیے وزیرِ اعظم کو بذاتِ خود وزیرِ خزانہ کو پہلو میں بٹھا کر پریس کانفرنس کرنا پڑی۔ بہرحال جو بھی ہوا آخر میں اس کا ثمر ہاتھ آ گیا۔
شکریہ ارکانِ پارلیمان کا جنہوں نے قومی بجٹ کی منظوری کے محض دو ہفتے بعد دو سو پندرہ ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کرنے اور پچاسی ارب روپے کی مختلف شعبوں میں کٹوتیوں کے مالیاتی مطالبات بنا کسی بحث محض ایک دن میں منظور کر لیے تاکہ ان کی سرکاری حج فلائٹ لیٹ نہ ہو جائے۔
شکریہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا جنہوں نے متحدہ عرب امارات و سعودی عرب پر اپنا جادو چلایا اور پاکستانی خزانے کے لیجر رجسٹر میں کم ازکم تین ارب ڈالر اس وعدے پر ڈلوائے کہ اس امانت کو بس ہم دور سے دیکھیں گے خرچ نہیں کریں گے۔ یہی کام ان سے پہلے جنرل باجوہ نے کر کے ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
لگتا ہے فوجی قیادت نے بہ امرِ مجبوری ملک کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اقتصادی سرحدوں کے تحفظ کا بھی بیڑہ اٹھا لیا ہے۔
اس کامیابی سے دو ہفتے قبل ہی قومی اقتصادی بحالی کے لیے خلیجی ممالک سے بیس سے پچیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کھینچنے کے لیے جو ون ونڈو اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل بنائی گئی، اس میں بھی آرمی چیف شامل ہیں اور اس کونسل کے فیصلوں پر ترنت عمل درآمد کی ذمہ دار ایپکس کمیٹی کی سربراہی بھی ایک میجر جنرل کو سونپی گئی ہے۔
اور مزید شکریہ چین کا جس نے گزشتہ تین ماہ کے دوران پانچ ارب ڈالر کی واجب الادا اقساط بار بار رول اوور کر کے پاکستانی خزانے کو اس وضع دار نواب کی طرح برقرار رکھا، جس کے کرتے کی ایک جیب میں چنے اور دوسری جیب میں کش مش ہوتی ہے۔ کش مش مہمانوں کو دکھانے کے لیے اور چنے خود کھانے کے لیے۔ وہ الگ بات کہ یہ وضع داری نبھانے کی قیمت عام آدمی لوہے کے چنے چبا کے ادا کر رہا ہے۔ پر وہ جو کہتے ہیں کہ اوپر والے نے بکرا تو پیدا ہی قربان ہونے کے لیے کیا ہے۔
اور مزید شکریہ وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہ جنہوں نے آئی ایم ایف سے یہ قسط اگلوانے کے لیے امریکی حکام کا دل نرم کرنے کی بھرپور کوششیں کیں۔ کیونکہ آئی ایم ایف میں سب سے زیادہ حصص امریکہ بہادر کے ہی ہیں۔
اور بہت ہی شکریہ آئی ایم ایف کی ایم ڈی کرسٹالینا جارجیوا کا جنہوں نے ہمارے وزیرِ اعظم کی یقین دہانیوں کو ایک بار پھر اہمیت دے کے شفقت و ہمدردی دکھائی۔
اور شکریہ سابق ڈیفالٹر سری لنکا کے صدر کا جنہوں نے پیرس کے مالیاتی اجلاس میں پاکستان کی وکالت کر کے دوستی کا حق ادا کر دیا اور سب سے زیادہ شکریہ وزیرِ حزانہ اسحاق ڈار کا کہ جن کی تمام تر کوششوں کے باوجود آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر عین آخری لمحات میں دانتوں سے پکڑنے میں پاکستان کامیاب ہو ہی گیا۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ برے سے برے حالات میں بھی مایوس نہیں ہوتی۔ تعبیر بھلے نچلی سطح تک تقسیم نہ ہو مگر عام آدمی کو خواب تقسیم کرنے میں اسٹیبلشمنٹ اور اس کے سیاست داں کبھی بھی بخل سے کام نہیں لیتے۔
مثلاً جب جولائی دو ہزار اٹھارہ میں یہی اسٹیبلشمنٹ باجے گاجے کے ساتھ عمران خان کو اقتدار میں لائی تو خان صاحب کے ایک دستِ راست مراد سعید نے سینکڑوں کے مجمع کو یہ کہہ کے ایڑیوں کے بل تالی بجانے پر مجبور کر دیا کہ جس دن عمران خان حلف لے گا اس کے اگلے دن وہ سارا غیر ملکی قرضہ قرض دینے والوں کے منہ پر مار دے گا۔ ایک کروڑ نوکریاں پانچ سال میں پیدا کی جائیں گی۔ لوگ باہر سے نوکری کرنے پاکستان آئیں گے وغیرہ وغیرہ۔
آج کل مراد سعید روپوش ہیں اور وہی اسٹیبلشمنٹ انہیں ڈھونڈھ رہی ہے جو کل تک اسحاق ڈار کو ڈھونڈھ رہی تھی۔آج وہی اسحاق ڈار سینہ ٹھونک کے کہہ رہے ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو دیوالیہ نہیں کر سکتی۔
انیس سو اٹھانوے میں موجودہ وزیرِ اعظم کے بڑے بھیا نے اعلان کیا تھا کہ ہم نے وہ کشکول ہی توڑ ڈالا جس میں آئی ایم ایف سے جا کے بھیک مانگی جاتی تھی۔کل پچیس برس بعد انہی کشکول شکن میاں صاحب کے برادرِ خورد نے یہ اعلان کیا کہ ہم آخری بار آئی ایم ایف سے مدد مانگ رہے ہیں۔ اس کے بعد ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے، انشااللہ۔ سیانے لوگ کشکول پھینکتے نہیں بس توڑ دیتے ہیں تاکہ دوبارہ جوڑ سکیں۔
خدا کرے ایسا ہی ہو۔ مگر مجھ جیسوں کا دل بیٹھ جاتا ہے جب تمام گزشتہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت کے وزرا بھی سینہ ٹھونک کے کہتے ہیں کہ ہم نے اس بار اقتصادی اصلاحات کا جو منصوبہ بنایا ہے اس کے سبب نہ صرف اگلے چند ماہ میں خلیجی ریاستوں سے بیس سے پچیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آنے والی ہے بلکہ ان اصلاحات کے سبب چالیس لاکھ نئی ملازمتیں بھی پیدا ہوں گی۔
اگلے پانچ سے سات برس میں پاکستان میں ایک سو بارہ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی اور پاکستان دو ہزار چونتیس تک ٹریلین ڈالر معیشت بن جائے گا۔ اور آبادی بھی تب تک چوبیس کروڑ سے بڑھ کے چونتیس کروڑ ہو جائے گی۔ معیشت کیسے بڑھے گی اور آبادی کیسے گھٹے گی؟ ایسے سوال آج کے دن کوئی ملک دشمن ہی پوچھ سکتا ہے۔
یہ اس حکومت کے دعوے ہیں جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اگلے ماہ اس کی جگہ نئی نگراں حکومت آ جائے گی تاکہ اکتوبر نومبر میں عام انتخابات ہو سکیں۔
”کفن‘‘ منشی پریم چند کے شاہکار افسانوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس افسانے کے دو اہم کردار ہیں۔ باپ کھیسو اور بیٹا مادھو۔ مادھو کی بیوی بدھیا مر رہی ہے اور دونوں باپ بیٹا جھونپڑی کے باہر بدھیا کی موت کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں تاکہ گاؤں کا مکھیا ترس کھا کے جب بدھیا کے کفن کے پیسے دے گا تو ان پیسوں سے شہر جا کے شراب کا ادھا خریدیں گے اور بہت دنوں بعد بھر پیٹ کھانا کھائیں گے۔ اس دوران کوئی نہ کوئی ترس کھا کے بدھیا کو دوسرا کفن دے ہی دے گا۔
یہ افسانہ انٹرنیٹ پر باآسانی دستیاب ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔