مودی کی نواز شریف سے فون پر گفتگو، رمضان کی مبارکباد
17 جون 2015اسلام آباد سے موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے اپنے پاکستانی ہم منصب کو کی گئی یہ ٹیلی فون کال اور اس دوران ہونے والی گفتگو بظاہر اس رنجش اور سرد مہری کے خاتمے کی کوشش ہے، جس کی وجہ نریندر مودی کے وہ اشتعال انگیز بیانات بنے تھے جو انہوں نے اپنے حالیہ دورہء بنگلہ دیش کے دوران دیے تھے۔
پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے دفتر کی طرف سے منگل 16 جون کی رات جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اس ٹیلی فون گفتگو کا دورانیہ قریب پانچ منٹ تھا، جس دوران نریندر مودی نے رمضان کے اسلامی مہینے کے آغاز سے قبل نواز شریف اور پاکستانی عوام کے لیے خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کیا۔
اس بیان میں کہا گیا ہے کہ اس موقع پر وزیر اعظم مودی نے یہ اعلان بھی کیا کہ نئی دہلی حکومت نے ان بہت سے پاکستانی ماہی گیروں کی رہائی کا فیصلہ کیا ہے، جو غلطی سے بھارتی سمندری حدود میں داخل ہو گئے تھے اور اس وقت بھارت کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ نریندر مودی نے کہا کہ بھارتی حکومت ان پاکستانی ماہی گیروں کو خیرسگالی کے جذبات اور پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش کے ساتھ رہا کر رہی ہے۔ اس پر پاکستان کی طرف سے بھی خیرسگالی کے جوابی اظہار کے طور پر یہ اعلان کیا گیا کہ ان بھارتی ماہی گیروں کو بھی رہا کر دیا جائے گا، جو اس وقت پاکستانی جیلوں میں زیر حراست ہیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ دونوں ملک اپنی اپنی جیلوں میں قید ایک دوسرے کے کتنے ماہی گیر رہا کریں گے۔
اے ایف پی نے اسلام آباد سے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم کا اپنے پاکستانی ہم منصب سے منگل کی رات کیا جانے والا ٹیلی فون رابطہ بظاہر ایک ایسی سفارتی کوشش ہے، جس کا مطلب دوطرفہ کشیدگی اور لفظوں کی اس جنگ کے اثرات زائل کرنا ہے، جو ابھی حال ہی میں مختلف وجوہات کی بناء پر کافی شدید ہو گئی تھی۔
ان وجوہات میں دونوں ملکوں کے سرحدی دستوں کے مابین کچھاؤ اور ماضی قریب میں ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے علاوہ میانمار میں بھارتی فورسز کی مبینہ کارروائی کے حوالے سے ایک بھارتی وزیر کے بیانات اور پھر مودی کے دورہء بنگلہ دیش کے دوران کی جانے والی ایک تقریر بھی شامل تھی۔
میانمار کے سرحدی علاقے میں مبینہ بھارتی علیحدگی پسندوں کے خلاف ایک حالیہ کارروائی کا دعویٰ کرتے ہوئے بھارت کے ایک وزیر کی طرف سے کہا گیا تھا کہ نئی دہلی کے دستے ان تمام ملکوں کی سرحدوں کے اندر تک جا کر کارروائی کر سکتے ہیں، جہاں سے بھارت مخالف حملے کیے جاتے ہیں۔ یہ اشارہ واضح طور پر پاکستان کی طرف بھی تھا، جس پر اسلام آباد میں سیاسی اور فوجی قیادت کی طرف سے سخت ردعمل دیکھنے میں آیا تھا۔
اس کے علاوہ نریندر مودی نے اپنے دورہء بنگلہ دیش کے دوران ڈھاکا میں اپنی ایک تقریر میں یہ بھی کہا تھا کہ بنگلہ دیش اور بھارت کی نئی نسل کو یاد رکھنا چاہیے کہ بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ میں بھارتی دستے مکتی باہنی کے جنگجوؤں کے ساتھ مل کر لڑے تھے اور انہوں نے بھی بنگلہ دیش کے قیام میں اپنا کردار دا کیا تھا۔
مودی کے اس بیان پر پاکستان کی طرف سے شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم کے یہ الفاظ نئی دہلی کی طرف سے اس امر کا واضح اعتراف ہیں کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان میں مداخلت کرتا رہا ہے۔