مہاجرت کا سفر : کسی کا لخت جگر مِلا، کسی کا جُدا ہوا
7 جون 2016شمالی افريقہ ميں ليبيا سے يورپی رياست اٹلی کی جانب گامزن ماہی گيری کے ليے استعمال ميں آنے والی اس کشتی پر سات سو سے زائد مہاجرين سوار تھے۔ ساميہ ليلیٰ کئی مردوں کے بيچ ايک طرف دبی بيٹھی تھی تو ايک کونے ميں رشيد جاقالی اپنی اہليہ، بيٹی اور دو بيٹوں کے ہمراہ بيٹھا تھا۔ جاقالی کے بيٹے مخالف سمت ميں بيٹھے تھے اور درميان ميں سينکڑوں لوگ موجود تھے۔ جب بالآخر مدد پہنچی تو ہر طرف افراتفری پھيل گئی۔ ڈرے سہمے لوگوں نے کوئی پرواہ کيے بغير کشتی سے اترنے کی کوشش کی۔ لوگوں کے ہجوم سے لڑتے جھگڑتے ليلیٰ کشتی سے اترنے والی پہلی تھی اور پھر کچھ دير ميں رشيد جاقالی، اس کی اہليہ، بيٹی اور ايک بيٹا بھی کشتی سے اتر گئے۔ اسی اثناء ميں لڑکھڑاتی کشتی سمندر ميں الٹنے لگی اور ارد گرد موجود ريسکيو حکام اور بچا ليے جانے والے اپنے پياروں کو موجوں کی نظر ہوتا ديکھتے رہے۔ رشيد جاقالی کے بڑے بيٹے محمد نے اپنے اہل خانہ کو آخری الفاظ بس يہی کہے کہ ’ميں آ رہا ہوں‘ ليکن اس کے فوری بعد وہ کچھ ہو گيا، جو اس نے سوچا تک نہ تھا۔
مہاجرين کے ليے موسم سرما ’اميد کی کرن‘ کی حيثيت رکھتا ہے ليکن حقيقت يہ ہے کہ يہ موسم سب سے زيادہ ہلاکتوں کا سبب بھی بنتا ہے۔ گرمی کے موسم ميں سمندر مقابلتاً پر سکون ہوتے ہيں اور اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہزاروں، لاکھوں لوگ بحيرہ روم کا سفر طے کرتے ہيں۔ ان ميں کئی اپنی منزل تک نہيں پہنچ پاتے۔ جس کشتی پر ليلیٰ اور رشيد جاقالی سوار تھے اس کے پچيس مئی کے دن سمندر ميں ڈوبنے کے نتيجے ميں ڈھائی سو افراد کی موت واقع ہوئی۔
پينتاليس سالہ کُرد رشيد جاقالی کا تعلق شمالی شام سے ہے اور وہ ليبيا اس ليے منتقل ہو گيا تھا تاکہ کُرد مليشيا اس کے بيٹوں کو بھرتی نہ کر لے۔ وہ سن 2013 ميں اپنے چھوٹے بيٹے یحیحیٰ کے ہمراہ ليبيا گيا تھا جبکہ باقی اہل خانہ ايک برس بعد وہاں پہنچے۔ ليبيا ميں جاقالی خاندان کا گزر بسر کافی مشکل رہا۔ نتيجتاً انہوں نے جرمنی جا کر پناہ لينے کا فيصلہ کيا اور بڑی مشکل سے بارہ سو ڈالر کی مدد سے ايک اسمگلر کا سہارا ليتے ہوئے اپنا سفر شروع کيا۔
دريں اثناء اسی سفر پر ليلیٰ بھی ان کے ساتھ تھی۔ وہ بھی شام سے فرار ہو کر ليبيا پہنچی مگر اسے بھی ليبيا راس نہ آيا۔ سن 2013 ميں جب طرابلس ميدان جنگ بنا تو اس کا خاوند اور دو بچے جرمنی چلے گئے۔ ليلیٰ سمندر کے سفر سے خوفزدہ تھی اور اسی ليے اس نے فيصلہ کيا کہ وہ بعد ميں فيملی ری يونين پروگرام کے توسط سے جرمنی چلی جائے گی۔ پھر کچھ يوں ہوا کہ جرمنی ميں اس کے خاوند کی دستاويزی کارروائی تاخير کا شکار ہو گئی اور اسی دوران اس کے شامی پاسپورٹ کی مدت ختم ہو گئی۔ ليلیٰ نے اپنا سب کچھ بيچ کر ساڑھے چار سو ڈالر کے عوض جرمنی پہنچنے کا فيصلہ کر ليا۔ ليلیٰ کے بقول وہ اندر ہی اندر مر رہی تھی اور اسی ليے اس نے اپنے خوف پر قابو پاتے ہوئے اپنے اہل خانہ کے پاس جانے کا فيصلہ کر ہی ليا۔
پھر وہ رات آئی جب ليلیٰ اور رشيد جاقالی نے اپنے خاندان کے ساتھ سفر شروع کيا۔ وہ سب کچھ جو انسانوں کے اسمگلروں نے ان لوگوں کو بتايا تھا، وہ جھوٹ تھا۔ ابتداء ميں بيس افراد کی گنجائش والی کشتيوں پر ستر ستر افراد کو بٹھايا گيا۔ بعد ازاں انہيں ماہی گيری کے ليے استعمال ميں آنے والی بڑی کشتی پر بٹھا ديا گيا۔ چھ گھنٹوں کے سفر کے بعد کشتی کا انجن رک گيا۔ کشتی چلانے والے نے تمام مہاجرين کو بتايا کہ قريب چاليس منٹ ميں اطالوی جہاز مدد کے ليے پہنچيں گے۔ مدد پہنچی تو سہی ايک ايک خاندان کے لخت جگر کی ہلاکت اور ايک دوسرے کے ملاپ کا سبب بنی۔ ريسکيو ٹيموں نے جب لائف جيکٹس پانی ميں پھينکيں، تو انہيں حاصل کرنے کے ليے پھيلنے والی افرتفری کے نتيجے ميں کشتی توازن برقرار نہ رکھ پائی۔
اس واقعے کے چھ دن بعد جاقالی خاندان کو ان کے سترہ سالہ بيٹے محمد کی ہلاکت کے بارے ميں مطلع کر ديا گيا۔ دوسری جانب ليلیٰ جرمنی کے سفر پر گامزن ہوئی۔