مہاجرين کا بحران : کروشيا اور سلووينيا مدد طلب کرنے پر مجبور
23 اکتوبر 2015سلووينيا کی حکومت نے يورپی يونين سے پوليس اہلکاروں کا مطالبہ کيا ہے تاکہ کروشيا سے سلووينيا آنے والے مہاجرين کی تعداد کو کنٹرول کيا جا سکے۔ يہ بات سلووينيا کے وزير داخلہVesna Gyorkos Znidar نے ايک ملکی ٹيلی وژن اسٹيشن پر بات کرتے ہوئے کہی۔ اس مطالبے کے جواب ميں يورپی يونين نے تصديق کر دی ہے کہ آسٹريا، جرمنی، اٹلی، ہنگری، چيک ری پبلک، سلوواکيہ اور پولينڈ کی جانب سے پوليس اہلکار مہيا کرنے کی پيشکش کی ہے۔
يہ امر اہم ہے ہنگری کی طرف سے پناہ گزينوں کے ليے اپنی بيرونی سرحديں بند کر ديے جانے کے حاليہ فيصلے کے بعد پناہ گزينوں کو مغربی يورپ پہنچنے کے ليے کروشيا اور سلووينيا کا متبادل راستہ اختيار کرنا پڑ گيا ہے۔ اس پيش رفت کے نتيجے ميں ان چھوٹی رياستوں کو متعدد انتظامی مسائل کا سامنا ہے۔
تازہ پيش رفت کے مطابق سلووينيا کے وزير اعظم نے مہاجرين کی ديکھ بھال اور انہيں بنيادی سہوليات کی فراہمی کے ليے يورپی کميشن سے آئندہ چھ ماہ کے ليے ساٹھ ملين يورو کا مطالبہ کيا ہے۔ قبل ازيں مہاجرت سے متعلق يورپی يونين کے کمشنر Dimitris Avramopoulos نے سلووينين وزير داخلہ کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا کہ يورپی يونين اس مشکل وقت ميں سلووينيا کا ساتھ نہيں چھوڑے گی۔ بعد ازاں اس اعلٰی يورپی اہلکار نے مزيد بتايا کہ سلووينيا کی حکومت نے خيموں، کمبل اور ديگر اشياء کی درخواست کی ہے۔ دو ملين آبادی والے ملک سلووينيا کے وزير داخلہ Vesna Gyorkos Znidar کے بقول مہاجرين پر يوميہ 770,000 يورو کے اخراجات آ رہے ہيں۔
دريں اثناء کروشيا نے بھی بين الاقوامی مدد طلب کر لی ہے۔ زغرب حکومت نے سرد موسم کے ليے خيموں، کمبل، بستر اور ديگر سامان کی اپيل کی ہے۔ ستمبر کے وسط سے اب تک تقريباً 217,000 پناہ گزين کروشيا ميں داخل ہو چکے ہيں۔
کروشيا کی سرحد پر واقع ريگونس کے مقام پر قريب دو ہزار پناہ گزينوں کو سخت يورپی سردی ميں کئی گھنٹوں تک ايک کھلے ميدان ميں رکھا گيا۔ بعد ازاں پوليس نے انہيں اپنی نگرانی ميں مہاجرين کے ايک قريبی کيمپ تک پہنچايا۔ لبنان سے وہاں پہنچنے والے ايک ستائيس سالہ فلسطينی ترک وطن نے بتايا، ’’ميں سويڈن جانا چاہتا تھا تاکہ اپنی تعليم جاری رکھ سکوں ليکن اتنے برے حالات ميں رہنے سے بہتر ہے کہ ميں گھر واپس چلا جاؤں۔‘‘
يورپی يونين ميں سويڈن کا شمار ان ممالک ميں ہوتا ہے، جہاں پناہ گزينوں کی آمد پر کوئی رکاوٹيں نہيں۔ تاہم اس رياست ميں بھی سال رواں کے اختتام تک توقع ہے کہ 190,000 پناہ گزين پہنچ چکے ہوں گے۔ نتيجتاً حکام کے پاس تاحال اس کے سوا کوئی چاہ نہيں کہ پناہ گزينوں کو خيموں ميں بسايا جائے۔