مہاجرين کے بحران کا حل: عالمی اداروں کا نیا مالیاتی منصوبہ
11 اکتوبر 2015اس منصوبے کے تحت ڈونر ممالک سے بانڈز کے ليے گارنٹی طلب کی جائے گی تاکہ تعمير نو کے منصوبوں کے ليے رقوم جمع کی جا سکیں۔ مشرق وسطٰی اور براعظم افريقہ کے سرمايہ کاروں کی ترجیحات کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ بانڈز اسلامی بينکاری کے معيارات کے تحت جاری کیے جائیں گے، جنہيں صُکوک کہا جاتا ہے۔ مشرق وسطٰی اور يورپ کے ليے عالمی بينک کے نائب صدر حافظ غنيم نے بتايا کہ جن ممالک ميں مہاجرين نے بڑی تعداد میں پناہ لے رکھی ہے، ان کی مالی مدد کے ليے ڈونر ریاستوں اور اداروں سے مزيد گرانٹ کے مطالبے بھی کيے جائیں گے۔
نئے بانڈز کے اجراء سے متعلق اس مالیاتی منصوبے کا اعلان جنوبی امريکی ملک پيرو کے دارالحکومت ليما ميں عالمی پاليسی سازوں کے ايک اجلاس ميں ہفتہ دس اکتوبر کے روز کيا گيا۔ اقوام متحدہ، عالمی بینک اور اسلامی ترقیاتی بينک کے اس مشترکہ اجلاس ميں شام، عراق، ليبيا اور يمن ميں جاری مسلح تنازعات کے نتيجے ميں پيدا ہونے والے انسانی اور معاشی بحرانوں کے حل کی تلاش پر بھی تبادلہ خيال کيا گيا۔
ورلڈ بينک کے صدر جم يونگ کم نے اس اجلاس کو بتايا کہ بحران زدہ خطوں ميں خونریز تنازعات کے باعث اب تک 15 ملين انسان اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہيں۔ یہ پیش رفت ترکی، لبنان اور اردن جيسے ملکوں ميں کئی ملین مہاجرين کے جمع ہونے کی وجہ بن چکی ہے۔
انٹرنيشنل ايجنسيوں کے اس مجوزہ منصوبے کو ترقی يافتہ ملکوں کے گروپ جی سیون کے علاوہ کئی يورپی رياستوں کی حمايت بھی حاصل ہے۔ اندازوں کے مطابق اس منصوبے کے تحت آئندہ پانچ سے لے کر دس برسوں کے دوران تقريباﹰ 10 بلين ڈالر جمع کيے جا سکتے ہيں۔ اس منصوبے کی تفصيلات ايک ورکنگ گروپ طے کر رہا ہے، جو آئندہ برس فروری تک مکمل کر لی جائیں گی۔
مشرق وسطٰی اور يورپ کے ليے عالمی بينک کے نائب صدر حافظ غنيم نے اس اجلاس میں کہا کہ يہ مالیاتی منصوبہ ہر کسی کے مفاد ميں ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’مشرق وسطٰی اور شمالی افريقہ ميں عدم استحکام پوری دنيا کو متاثر کر رہا ہے۔ صرف مہاجرين کے بحران کی صورت ميں نہيں بلکہ دہشت گردی اور خام تيل کی قيمتوں ميں اتار چڑھاؤ کے باعث بھی۔ يہی وجہ ہے کہ اس بحران کا تدارک ہی بين الاقوامی برادری کے مفاد میں ہے تاکہ بدحالی کے شکار ممالک ميں دوبارہ استحکام لايا جا سکے اور وہ پھر سے ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکيں۔‘‘
بدامنی کے شکار ملکوں کی صورتحال پر اظہار رائے کرتے ہوئے حافظ غنيم کا مزيد کہنا تھا، ’’يورپ ميں ان دنوں جو کچھ ہو رہا ہے، اسی کی وجہ سے لوگ اب شام کی صورتحال پر زیادہ توجہ مرکوز کر رہے ہيں۔ يمن کی صورتحال بھی غور طلب ہے۔‘‘ لیما میں ہونے والی یہ ملاقات عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے سالانہ اجلاس کے سلسلے میں ہونے والی ایک میٹنگ تھی، جس کے بعد غنیم نے مزید کہا، ’’ترکی اور تيونس کو بھی اپنے ہاں مہاجرین کی بڑی تعداد میں آمد کی ایک نئی لہر کا سامنا ہے۔‘‘ حافظ غنیم کے مطابق ان ملکوں کے مسائل پر بھی خاص توجہ دی جانے چاہیے۔