مہاجرین، جرمنی کے لیے غیر متوقع چیلنج، ڈی ڈبلیو کا تبصرہ
20 اکتوبر 2015فیلِکس شٹائنر اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں کہ اس بات کو ابھی چار ہفتے بھی نہیں گزرے جب جرمن صدر یوآخم گاؤک نے کہا تھا، ’’ہمیں اس بات کا علم ہے کہ مہاجرین کی آمد سے اس ملک میں تبدیلی آئے گی۔‘‘ لیکن جرمنی کتنا جلد اور کس سمت میں تبدیل ہو رہا ہے، یہ بات انتہائی تشویشناک ہے۔ شٹائنر کے بقول، ’’ہینری اَیٹے ریکر پر خنجر سے حملہ معاشرے میں تیزی سے فروغ پانے والی بنیاد پرستانہ سوچ کا ایک ابتدائی عروج ہے۔‘‘ ہینری اَیٹے ریکر اس دوران کولون شہر کی میئر بھی منتخب ہو چکی ہیں۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ سماجی ویب سائٹس پر کئی ہفتوں سے نفرت انگیز بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس دوران سازشی نظریات کو فروغ دیا جا رہا ہے اور حقیقت بیان کرنے کی بجائے افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں تنقید کا مرکز جرمن چانسلر انگیلا میرکل ہیں۔ انہیں ’عوام سے غداری کرنے والی‘ اور ’مہاجرین کی طوائف‘ جیسے برے القابات سے نوازا جا رہا ہے۔ ان کے لیے یہ الفاظ انٹرنیٹ پر شناخت پوشیدہ رکھتے ہوئے ہی نہیں بلکہ عوامی اجتماعات میں بھی کھلے عام استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً روزانہ ہی پناہ گزینوں کے کسی نہ کسی مرکز کو نذر آتش کرنے کے واقعات بھی سامنے آ رہے ہیں۔
شٹائنر کے مطابق یہ بہت بڑی خوش قسمتی ہے کہ آتشزدگی کے ان واقعات میں ابھی تک کوئی جان نہیں گئی۔ ان سب واقعات کا مہاجرین سے متعلق حکومتی پالیسیوں کی عوامی مخالفت اور غصے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آج کل جو جرمنی میں ہو رہا ہے، وہ دہشت گردی ہے۔ یہ منظم انداز میں تو نہیں لیکن ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہے۔ ان کے بقول بلدیاتی انتخابات کے دوران ہینری اَیٹے ریکر پر اسلام مخالف تنظیم پیگیڈا کا مرکز سمجھے جانے والے شہر ڈریسڈن میں حملہ نہیں ہوا بلکہ انہیں لبرل سوچ رکھنے والے ایک کثیرالثقافتی شہر کولون میں نشانہ بنایا گیا۔ حملہ آوروں سے تفتیش جاری ہے اور اس میں زیادہ تر وہ افراد ملوث ہیں، جو اس سے قبل پولیس کو کبھی مطلوب نہیں رہے۔
فیلِکس شٹائنر اپنے تبصرے میں مزید لکھتے ہیں کہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے جرمن شہریوں کی اکثریت کو حالات کی سنگینی کا ابھی تک صحیح طرح علم نہیں ہو سکا کہ 2015ء کے موسم خزاں میں معاشرے کو کن چیلنجز کا سامنا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ صرف یہ نہیں کہ ایک بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کے لیے رہائش اور ان کے انضمام کا انتظام کرنا ہو گا بلکہ جرمن معاشرے کی بنیادی اقدار کا دفاع کیا جانا بھی ضروری ہے۔ ان کے بقول اس کا مطلب یہ ہے کہ مبینہ اسلام پسند تارکین وطن سے خوف کھانے کی بجائے جمہوریت اور آزادی کا دفاع کیا جائے۔