مہاجرین کا بحران: خصوصی یورپی سمٹ اتوار کو برسلز میں
21 اکتوبر 2015ہزارہا مہاجرین سلووینیہ، کروشیا اور سربیا کی سرحدوں پر جمع ہیں۔ وہ شمالی اور مغربی یورپ جانے کی کوشش میں ہیں لیکن یورپ میں سفارتی تناؤ کی وجہ سے یہ مہاجرین سردی، بارش اور کیچڑ میں پھنس کر رہ چکے ہیں۔ اس صورتحال میں بہتری کی کوشش کے لیے یورپی کمیشن کے سربراہ ژاں کلود یُنکر نے ایک سمٹ بلائی ہے۔ برسلز میں آئندہ اتوار کے روز منعقد ہونے والی اس سمٹ میں آٹھ یورپی ممالک کے رہنماؤں کے علاوہ سربیا اور مقدونیہ کے رہنما بھی شریک ہوں گے۔
یُنکر کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق زیادہ تعاون، مؤثر مشاورت اور فوری ایکشن سے صورتحال کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ یُنکر کے مطابق بلقان کے مغربی راستوں سے یورپ پہنچنے کے خواہشمند مہاجرین کو درپیش مسائل کو فوری طور پر حل کیا جانا چاہیے۔ اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے جن آٹھ ممالک کو اس سمٹ میں مدعو کیا گیا ہے، ان میں آسٹریا، جرمنی، بلیجیم، کروشیا، یونان، ہنگری، رومانیہ اور سلووینیہ شامل ہیں۔
مختلف خبر رساں اداروں کے مطابق اس سمٹ میں رہنماؤں کی کوشش ہو گی کہ وہ سرحدی گزرگاہوں کی مؤثر نگرانی، مہاجرین کے لیے آسان سفر اور رجسٹریشن اور دیگر انتظامی معاملات پر متفق ہو جائیں۔ یورپی یونین کی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے بھی اس سمٹ کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ہفتے یورپی یونین کی سمٹ میں طے پانے والی گائیڈ لائنز کے تحت بلقان میں پائے جانے والے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
شورش زدہ شام، عراق اور افغانستان سے تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد یورپ پہنچ رہی ہے۔ یہ مہاجرین ترکی سے یونان اور پھر مقدونیہ اور سربیا کا راستہ استعمال کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اس لیے مغربی بلقان میں ان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔
ہنگری کی طرف سے اپنی سرحدی گزرگاہوں کو بند کر دینے کی وجہ سے مہاجرین اب سلووینیہ کے راستے جرمنی اور آسٹریا کی طرف بڑھنے کی کوشش میں ہیں۔ ادھر اقوام متحدہ سے منسلک دو اہلکاروں نے کہا ہے کہ مہاجرین کے بحران کے حل کے لیے کی جانے والی یورپی کوششیں فیصلہ نہ کر سکنے کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہیں۔ ان اہلکاروں کے مطابق ایسا کوئی اشارہ نہیں کہ بلقان میں مہاجرین کی آمد کا سلسلہ تھمے گا۔ انہوں نے اس تناظر میں یورپی یونین کے سست ردعمل کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔