مہاجرین کا سیلاب، یونانی جزیرے پر سیاح خوف زدہ
24 جون 2019ایک مقامی استاد کا کہنا ہے، ''یہ مہاجر بستی ہمارے لیے باعث شرم ہے۔‘‘ واتھی کے قصبے میں قائم اس مہاجر بستی کو سن 2016 میں اس وقت وجود دیا گیا تھا، جب یورپی یونین اور ترکی کے درمیان مہاجرین کا بہاؤ روکنے کے لیے ایک معاہدہ ہوا تھا۔ اس معاہدے کے تحت یونانی جزائر پر موجود افراد کو سیاسی پناہ کے لیے درخواست دینا تھی جب کہ دوسری جانب ترکی کو اپنی طرف سے مہاجرین کو یونان پہنچنے سے روکنا تھا۔ تاہم اب بھی تارکین وطن کی کشتیاں یہاں تواتر سے پہنچ رہی ہیں۔
یہ حیرت کی بات نہیں کہ اس جزیرے کے پرانے باسی اس مہاجر بستی سے خاصے پریشان ہیں۔ کیوں کہ یہ مہاجر بستی ساڑھے چھ سو مہاجرین کے قیام کے لیے بنائی گئی تھی، تاہم اس وقت اس میں قریب چار ہزار تارکین وطن موجود ہیں۔ ان مہاجرین میں سے زیادہ تر کا تعلق مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ سے ہے۔ رسمی طور پر کوئی بھی شخص یہاں طویل قیام کا مجاز نہیں کیوں کہ قانونی طور پر حکام کسی بھی تارک وطن کی سیاسی پناہ کی درخواست کو تین ماہ میں نمٹانے کے پابند ہیں، تاہم عملی طور پر معاملہ مختلف ہے۔ یہاں مہاجرین ایک طرح سے پھنسے ہوئے ہیں۔
غیر انسانی حالات
یہ مہاجر بستی اب 'جنگل‘ کے نام سے مشہور ہو چکی ہے، جب کہ اس مہاجر بستی کے آس پاس تقریباﹰ پندرہ سو تارکین وطن رہ رہے ہیں۔
کانگو سے تعلق رکھنے والی تیس سالہ تارک وطن خاتون کے مطابق، ''ہمیں ہر وقت چوہوں اور سانپوں سے نمٹنا پڑتا ہے۔ ہمارے پاس بیت الخلا کی سہولت ہے اور نہ پینے کے پانی تک رسائی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ بہت سے یونانی شہری تارکین وطن پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ یورپ میں پیسے کمانے آئے، حالاں کہ ایسا کوئی معاملہ نہیں۔ اس خاتون کو بھی اپنے ملک میں جاری تنازعے کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔
تارکین وطن کی بہت بڑی تعداد کی وجہ سے اس خاتون کا سیاسی پناہ کا معاملہ مارچ 2021 میں سنا جانا ہے اور وہ بے تابی سے اس کا انتظار کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس مہاجر بستی میں روزانہ کی بنیاد پر فی فرد فقط ڈیڑھ لیٹر پینے کا پانی مہیا کیا جاتا ہے اور خوراک بھی نہایت قلیل ہوتا ہے۔
فلوریان شمٹس، ع ت، ع الف