مہاجرین کی رہائش گاہوں پر حملوں میں اضافہ شرمناک، جرمن وزیر
22 اکتوبر 2015میرکل کی قیادت میں موجودہ مخلوط حکومت میں شامل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی سے تعلق رکھنے والے ہائیکو ماس نے جمعرات بائیس اکتوبر کے روز برلن میں کہا کہ جو کوئی بھی مہاجرین یا ان کی رہائش گاہوں، پولیس اہلکاروں یا تارکین وطن کی مدد کرنے والے رضاکاروں پر حملوں کا مرتکب ہوتا ہے، اسے یہ علم بھی ہونا چاہیے کہ قانون کی حکمرانی والی ریاست کے طور پر جرمنی میں اس کے خلاف پوری طاقت سے کارروائی کی جائے گی۔
اسی دوران جرمن اخبار ’زُوڈ ڈوئچے سائٹُنگ‘ کے علاوہ NDR اور WDR نامی جرمن نشریاتی اداروں نے جرائم کی تحقیقات کرنے والے وفاقی ادارے BKA کے حوالے سے بتایا ہے کہ ملک میں بہت بڑی تعداد میں نئے مہاجرین کی آمد کے بعد دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی طرف سے پناہ کے خواہش مند ان غیر ملکیوں کے علاوہ ان کی رہائش گاہوں، ایسے شیلٹر ہاؤسز کے منتظمین اور سیاستدانوں تک پر حملے دیکھنے میں آ سکتے ہیں۔
یہ بات وفاقی ادارے بی کے اے کی ایک ایسی حالیہ لیکن خفیہ رپورٹ میں کہی گئی ہے، جو ابھی چند روز پہلے ہی تیار کی گئی تھی۔ یہ رپورٹ کولون شہر میں میئر کے عہدے کے لیے ہونے والے حالیہ الیکشن سے قبل ایک خاتون امیدوار پر دائیں بازو کے ایک انتہا پسند کے چاقو سے کیے گئے اس حملے کے بعد تیار کی گئی تھی، جس میں ہینری اَیٹے ریکر نامی یہ سیاستدان شدید زخمی ہو گئی تھیں۔
اس حملے کے بعد ریکر ابھی ہسپتال میں زیر علاج ہی تھیں کہ انہیں کسی بھی سیاسی پارٹی کے ساتھ وابستگی سے بالا تر انتخابی امیدوار ہونے کے باوجود بہت بڑی اکثریت سے کولون کی نئی میئر منتخب کر لیا گیا تھا۔
جرائم کی تحقیقات کرنے والے وفاقی جرمن محکمے کے مطابق ملک میں مہاجرین اور غیر ملکی پناہ گزینوں کی رہائش گاہوں پر حملوں میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ اس سال کے پہلے نو ماہ کے دوران ایسے کل 461 واقعات ریکارڈ کیے گئے، جن کے مرتکب عناصر کا تعلق تقریباﹰ یقینی طور پر دائیں بازو کے انتہا پسندوں سے تھا۔
اس طرح سال رواں کے دوران ایسے حملوں کی مجموعی تعداد جنوری سے لے کر ستمبر تک دگنی سے بھی زیادہ ہو چکی تھی۔ یہ حملے پناہ گزینوں کی زیادہ تر ایسی رہائش گاہوں پر کیے گئے جو یا تو پہلے ہی سے زیر استعمال تھیں یا پھر نئی تیار کی گئی تھیں۔