مہلک کورونا وائرس کے بارے ميں آپ کو یہ سب کچھ پتا ہونا چاہیے
23 جنوری 2020چينی طبی ماہرين نے خبردار کيا ہے کہ کورونا وائرس انسانوں سے انسانوں میں منتقل ہو سکتا ہے۔ حکام کے مطابق يہ وائرس تيزی سے تبديل بھی ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف اس کے مزيد پھيلنے کا خطرہ موجود ہے بلکہ اس کے علاج ميں بھی مشکلات سامنے آ سکتی ہيں۔ کورونا وائرس کی اس نئی مخصوص قسم کے بارے ميں فی الحال زيادہ معلومات دستياب نہيں تاہم اس وائرس کی ديگر اقسام چھينکوں اور کھانسی کے ذريعے پھيلتی ہيں۔
کورونا وائرس کہ وجہ سے اولین انفیکشن کی تشخيص چينی شہر ووہان ميں ہوئی۔ يہ وائرس جنگلی جانوروں اور مچھليوں کی ايک مارکيٹ سے پھيلا، جسے اب بند کیا جا چکا ہے۔ ماہرين کو خدشہ ہے کہ یہ وائرس انسانوں اور جانوروں کے براہ راست تعلق يا متاثرہ ماحول ميں سانس لينے سے منتقل ہوا۔ جانوروں سے انسانوں ميں منتقل ہونے والے وائرس انسانوں ميں 'زُونوٹک‘ بیماریوں کا سبب بنتے ہيں۔ ايسی بيماریاں عموماً متاثرہ جانور کا گوشت کھانے، گوشت کو درست طريقے سے نہ پکانے يا پھر آلودہ ماحول ميں کھانا پکانے سے پھیلتی ہیں۔
کورونا وائرس کی اس نئی قسم کی کسی انسان ميں پہلی مرتبہ تشخيص گزشتہ برس دسمبر ميں ہوئی تھی۔ تب سے لے کر اب تک چين ميں سينکڑوں افراد اس وائرس کا شکار ہو چکے ہيں جبکہ امريکا، تھائی لينڈ، جاپان، جنوبی کوريا اور تائيوان ميں بھی اس وائرس کے چند کيس رپورٹ کيے گئے ہيں۔
کورونا وائرس کی علامات کيا ہيں؟
جن مريضوں ميں اس وائرس کے تشخيص ہوئی ہے انہيں بخار، سانس لينے ميں دشواری اور کھانسی کی شکايات تھيں۔ يہ وائرس نمونيا کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ کم عمر افراد کی نسبت بزرگوں ميں اس وائرس کے زيادہ پھيلنے کا رجحان ديکھا گيا ہے۔
کورونا وائرس کے بارے ميں ہم اب تک کيا جانتے ہيں؟
طبی ماہرين نے کورونا وائرس کی مختلف اقسام کا جينياتی تجزيہ حال ہی ميں مکمل کيا۔ ایسے وائرس سب سے پہلے سن 1960 ميں سامنے آئے تھے۔ يہ عام طور پر جان ليوا ثابت نہيں ہوتے۔ اکثر اوقات کورونا وائرس صرف پيٹ کی تکليف اور اسہال جیسے امراض کا سبب بنتے ہيں۔
مختلف کورونا وائرس جينياتی طور پر آپس میں کافی متنوع ہوتے ہيں اور ان ميں خود کو حالات کے مطابق تبديل کر لینے کی صلاحيت بھی پائی جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ يہ وائرس مختلف انواع ميں منتقل ہو سکتے ہيں۔ ایسے وائرس کی چند اقسام عمومی زکام، کھانسی اور نزلے وغيرہ کا سبب بن سکتی ہيں تو چند ايک اقسام زيادہ شدید طبی صورت حال يا بیماریوں کا سبب بھی بن سکتی ہيں، جن کے نتیجے ميں نمونيا، سانس لينے ميں مشکل اور کبھی کبھار علاج نہ ہونے کی صورت ميں موت بھی ممکن ہوتی ہے۔
سن 2002 اور 2003ء ميں کورونا وائرس کی ايک کافی جارحانہ قسم 'سارس وائرس‘ تيس ملکوں ميں پھيل گئی تھی اور اس کے متاثرين کی تعداد آٹھ ہزار سے زائد تھی، جن ميں سے لگ بھگ ايک ہزار افراد ہلاک بھی ہو گئے تھے۔
اس وائرس کے پھيلاؤ کو کيسے روکا جا سکتا ہے؟
چين سے سفر کرنے والے مسافروں کے ليے دنيا بھر ميں کئی ہوائی اڈوں پر بخار چيک کرنے کی سہولت متعارف کرا دی گئی ہے اور چين ميں ايسی اسکريننگ اور بھی زيادہ سخت ہے۔ اگر اس وائرس کے پھيلاؤ کو ايک بين الاقوامی ہيلتھ ايمرجنسی قرار دے ديا جاتا ہے، تو بين الاقوامی سفری پابندياں، زيادہ سخت بارڈر چيکنگ اور مریضوں کے علاج کے لیے طبی مراکز سمیت کئی طرح کے اقدامات ممکن ہو جائیں گے۔
اس وائرس سے بچاؤ کے عمل کا ایک لازمی حصہ احتیاط بھی ہے۔ ايسے افراد سے دور رہنا ضروری ہے، جنہيں سانس لينے ميں دشواری پيش آ رہی ہو يا جن میں ايسی ہی ديگر علامات ظاہر ہو چکی ہوں۔ اس کے علاوہ جنگلی جانوروں اور بھيڑ بکريوں وغیرہ سے بھی دور رہنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
طبی ماہرين کا البتہ کہنا ہے کہ چین میں متعدد افراد کی موت کی وجہ بن چکے کورونا وائرس کی اس قسم کے عالمی سطح پر پھيلنے کے امکانات کم ہيں۔
ع س / م م، نيوز ايجنسياں